چودھری صاحب قسط ۲: ٹیوب لائٹ، شادی اور دوسری شادی

کالج کینٹین کی دوسری منزل پہ ایک چھوٹا سا ائیرکنڈیشنڈ ریڈنگ روم ہوا کرتا تھا، جس کی چند کرسیوں کیلئے اکثر انتظار کرنا پڑتا اور اس انتظار کو بھی پڑھائی کے وقت میں ہی شمار کیا جاتا۔ چودھری صاحب ایک دن اے سی کے عین سامنے براجمان تھے کہ ایک نیم بدمعاش وارد ہوا اور چودھری صاحب سے اٹھنے کا تقاضا کیا۔ چودھری صاحب نے کتاب سے نظریں اٹھائے بغیر انکار کر دیا۔ نیم بدمعاش نے ہاتھ مار کے کتاب زمین پہ گرا دی، اور جیب سے ریوالورنکال کر اس کا رخ چودھری صاحب کی طرف کیا اور بولا “اٹھ !”

چودھری صاحب نے کچھ دیر نیم بدمعاش کا اچھی طرح سے جائزہ لیا، ریوالور کو دیکھا، پھر آہستہ سے اٹھے، زمین سے کتاب اٹھائی، اور سیدھے ہوتے ہوئے دائیں ہاتھ کا گھسن نیم بدمعاش کی ٹھوڑی پر جڑ دیا۔ اس کی ٹھوڑی تقریباً ۶۰-۷۰ ڈگری کلاک وائز گھومی اور وہ پتوں کے گھر کر طرح زمین پر جا پڑا۔ چودھری صاحب نے ریوالر مالِ غنیمت کے طور پہ اٹھا لیا اور خاموشی سے ہاسٹل چلے گئے۔ گو کہ گھسن دید گواہوں کے بیان ہم تک پہنچ چکے تھے مگر پھر بھی شام کو ہم نے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہوا۔ کہنے لگے

“ایویں بد تمیزی کر ریا سی”

ستمبر یا اکتوبر کی رات تھی، نہ بہت گرمی اور نہ سردی۔ ہم سو رہے تھے کہ گرمی کے باعث آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو ہمارے سیالکوٹی بٹ دوست اور روم میٹ، بالکونی کے پاس کھڑے سگریٹ پی رہے تھے اور چودھری صاحب موم بتی کی روشنی میں جاسوسی ڈائجسٹ کی ورق گردانی کر رہے تھے۔ بجلی کا پینل بالکونی کے پاس تھا، ہم نے غنودگی کے عالم میں کہا:

“بٹ ! پکھا تے چلا دے، گرمی لگن ڈئی اے”

چودھری صاحب فورا بولے:

“او پکھا نہ چلائیں، موم بتی بجھ جائے گی “

“چودھری ٹیوب لائٹ بال لے” ہم نے آنکھیں بند کئے ہوئے کہا۔

“لائٹ ای کوئی نئیں” چودھری صاحب بولے۔

بٹ کے فلک شگاف قہقہے نے ہمیں احساس دلایا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔

چودھری صاحب، ٹیوب لائٹ , شادی اور دوسری شادی

ایک دن میں اور بٹ چودھری صاحب سے پوچھنے لگے، کہ کس لڑکی کو دیکھ کر ان کے دل میں کچھ کچھ ہوتا ہے؟ چودھری صاحب نے جُل دینے کی کوشش کی مگر ہم اڑے رہے، آخر انہوں نے کہہ ہی دیا کہ انہیں مہوش اچھی لگتی ہے۔

“کونسی والی مہوش؟ رول نمبر ۱۲۱؟” میں نے پوچھا ؟

“نہیں ، رولنمبر ۱۲۵”

“۱۲۵؟ مہوش؟ وہ کون ہے” میں نے پوچھا ۔

بٹ بولا “وہی جس کی قلمیں چودھری صاحب سے زیادہ گھنی ہیں، اور جو ٹیوب لائٹ کی طرح بار بار آنکھیں جھپکاتی ہے۔”

ہم چند لمحے خاموش رہے، پھر ہم نے کہا “اچھی ہے”

“ٹیوب لائٹ بھی آپ پہ فدا ہے چودھری صاب؟”بٹ نے پوچھا

“پتا نہیں”

یہ سن کر بٹ نے اپنا لمبا سا مخصوص قہقہ لگایا اور کہا “ چودھری صاب یکطرفہ عشق ای کرنا سی تے کم از کم کڑی سونڑی لب لینی سی “

“چلو چنگا اے کمپیٹیشن گھٹ ہووے گا” “ہہا ہاہاہاہا”

چودھری صاحب بولے ، “ بٹ صاحب تسی بد تمیزی کر رہے او”

بدتمیزی کا لفظ سن کر ہم دونوں ذرا ہشیار ہو گئے۔ بٹ بولا

“چودھری صاحب دوست ہون دے ناطے تواڈے نال بد تمیزی کرنا ساڈا حق اے تے اگر ٹیوب لائٹ دی شان وچ گستاخی ہوئی اے تے معذرت قبول کرو”

مہوش اور چودھری صاحب کا ناطہ تو کیا بنتا الٹا ہم نے سنا کہ وہ نیم بدمعاش کی زوجہ ہیں۔ چودھری صاحب بھی البتہ شادی کے معاملے میں کچھ پیچیدگیوں کا شکار رہے۔

فائنل ائیر میں چودھری صاحب کی غائبانہ منگنی ہوئی۔ لڑکی امریکہ میں مقیم تھی اور سسرال والوں نے شرط عائد کی کہ نکاح سے پہلے لڑکا یو-ایس۔ایم-ایل۔ای کرے گا۔ چودھری صاحب جُٹ گئے۔ دوستوں اور دشمنوں کی توقعات کے برخلاف خاصا اچھا سکور لیا اور پیا کے ساتھ امریکہ سدھار گئے۔ چاہت انہیں سرجری کی تھی مگر ریزیڈینسی سائیکیاٹری میں ملی جو ان کے مزاج سے کسی صورت میل نہیں کھاتی تھی۔ اس پر طرہ کہ ناک میں بولنا اور اس انداز سے کہ مخاطب کو سمجھنا مشکل ہوتا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، مریضوں اور چودھری صاحب دونوں کا پیمانہ لبریز ہونے لگا۔ ایک دن ایک بڈھے انگریز کو انہوں نے کوئی مشورہ دیا، اس نے مشورہ پر عدم اطمینان کا اظہار کچھ ان لفظوں میں کیا:

“وٹ دا فک ڈو یو نَو

گو بیک ٹو یور فکنگ کنٹری

سم بوڈی گیٹ می آ رئیل ڈوکٹر”

چودھری صاحب نے استعفی لکھا اور گھر آ گئے، اور ارادہ ظاہر کیا واپس پاکستان جائیں گے۔ بیگم نے صاف انکار کردیا۔ اس دوران ایک بیٹے کے والد بھی بن چکے تھے۔ چودھری صاحب کہا کہ آپ جائیں یا نہ جائیں میں جا رہا ہوں۔ بیگم نے کہا وہ تو کسی صورت نہیں جائیں گی اور بیٹا بھی ان کے پاس رہے گا۔ دوستوں نے سمجھایا کہ کسی دوسری سٹیٹ میں مختلف شعبہ میں قسمت آزمائی کر لیں مگر ان کا دل اٹھ چکا تھا، واپس آگئے اور پھر نئے سرے سے سرجری میں ٹریننگ شروع کر دی۔ اس دوران صلح کو کوششیں بیکار ہی رہیں اور علیحدگی کی قانونی کاروائی کا آغاز ہو گیا۔ چند سال بعد چودھری صاحب نے اپنی بھی ایک کولیگ سے شادی کرلی۔ اس دوسری شادی کو دو سال ہوئے ہوں گے کہ پہلی زوجہ بھی واپس آگئیں۔ یوں چودھری صاحب بیک وقت دو ٹیموں کے کپتان قرار پائے۔ گو شادی بٹ کی بھی نہ چل پائی مگر وہ کپتانی سے استعفی دے کر کلب کرکٹ کھیلنے لگے۔

خیر وہ قصہ پھر سہی۔

چودھری صاحب قسط نمبر ۱

نئی کلاس کے ابتدائی چند دنوں کی گروہ بندیاں ظاہر کرتی ہیں کہ طبقاتی تقسیم کس قدرگہرائی سے انسانی فطرت میں رچی بسی ہے۔ قریبا دو سو لوگوں کی کلاس جو ایک دوسرے کیلئے اجنبی ہیں مگر چند دنوں میں ہی ہر نئی آنے والی کلاس ایک ہی انداز میں مخصوص گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ایک جانب خوبرو اور امیر اقلیت اور دوسری جانب متوسط طبقے کے اوسط شکل و صورت والوں کی اکثریت۔ درمیان میں غریب گھرانوں کے خوبصورت اور متمول گھرانوں کے ایسے طلبا جو شکل کے معاملے میں خوش قسمت نہ ہوئے، ریلو کٹوں کی مانند ادھر سے ادھر لڑھکتے رہتے ہیں۔ اوسط اکثریت پھر اپنی زبان، شہر اور ذہنی اپج کے مطابق مزید چھوٹے گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ہم بھی اوسط اکثریت میں شامل تھے اور گرائیں ہونے کی ناطے چودھری صاحب ہمارے حصے میں آئے۔ اور یوں ایک ایسی دلچسب شخصیت سے رفاقت کا آغاز ہوا، جن کے کہے ہوئے فقرے اب ہم دوستوں میں ضرب المثل کے طور پہ استعمال ہوتے ہیں اور کوئی محفل ان کے ذکر کے بنا نامکمل ہوتی ہے۔

چودھری صاحب کا قد تقریباً چھ فٹ ہے مگر دیکھنے میں چھ فٹ سے خاصے کم دکھتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کندھے “لٹکائے “ہوئے، جھک کر چلتے ہیں اور دوسرا یہ کہ پتلون دھڑ کی آخری سرحد پہ باندھتے ہیں؛ یوں ان کی ٹانگیں دھڑ کے مقابلے میں نسبتا چھوٹی لگتی ہیں۔ چودھری صاحب کی طرح ان کے بال بھی انوکھے ہیں۔ چھوٹے اور مضبوط، جن کی سمت کا اندازہ نہیں ہوتا اور نہ آپ یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ ان کی تراش خراش ہوئی یا نہیں۔ نائی کے پاس جانے سے پہلے اور بعد ان میں بال برابر بھی فرق نظر نہیں آتا۔ پیشانی اونچی مگر کنپٹی کے بال قبضہ مافیا کی طرح خاصے رقبے پہ تجاوز کرتے نظر آتے ہیں۔ بھنویں گھنی اور آپس میں شیر و شکر۔ بھنووں کے اوپر کی ہڈیاں ذرا آگے کو بڑھی ہوئی اور نمایاں۔ آنکھیں تیز۔ بڑا ناک، چوڑے اور مضبوط جبڑے، دہانہ چھوٹا جسے سکوڑ کر وہ بندۂ مزدور کی معیشت کی مانند مزید تنگ کر لیتے ہیں۔ چوڑے چکلے شانے، پیٹ ہلکا سا بڑھا ہوا۔ مستطیل ٹھوڑی اور گہرا رنگ۔

رعب دار جثہ کے بر عکس چودھری صاحب کی آواز باریک ہے مگر بات پورے دھڑلے اور لگی لپٹی رکھے بغیر کرتے ہیں اور ان سے وابستہ زیادہ تر یادیں اسی خوبی کی بدولت ہیں۔ اناٹومی کی پہلی یا دوسری کلاس تھی، ہماری پروفیسر جوادھیڑ عمر کو پہنچ چکی تھیں، کلاس میں آئیں۔ اس وقت وہ ساڑھی میں ملبوس تھیں اور پیٹ کا تھوڑا سا حصہ نظر آتاتھا۔ چودھری صاحب نے ایک نظر ان کو دیکھا، پھر ناک سکوڑی، سر کو دائیں جانب گھما کر استفہامیہ سی نگاہ ہم پر ڈالی۔ ہم کچھ نہ سمجھے اور جوابی سوالیہ نظر سے ان کو دیکھا۔

وہ بولے: “اے کی بے شرمی اے”۔ اور منہ کو دیوار کی جانب کرلیا۔

ہم نے پوچھا، “کیا ہوا چودھری صاحب؟ “

کہنے لگے، “میڈم دا ٹڈ نظر آ ریا۔”

ہم نے اس “نظر”یاتی بحث میں پڑنا مناسب نہ سمجھا مگر اگلی صف میں بیٹھی ہوئی ایک لڑکی نے سر گھما کر خون آشام نظروں سے چودھری صاحب کو گھورا۔ کلاس کے بعد ہم ڈسیکشن ہال پہنچے، جہاں ہمیں ایک عدد مردہ کا دایاں بازو حصول علم کی خاطر الاٹ کیا گیا تھا۔ لڑکیوں کے ایک گروہ کو بایاں بازو دیا گیا اور اتفاقاً گھورنے والی لڑکی بھی اسی گروپ میں تھی۔ وہ وقفہ وقفہ سے چودھری صاحب کو دانت کچکچا کر گھورتی اور ساتھ والی کے کان میں بھی کچھ کہتی۔ ڈسیکشن میں ہمیں تین گھنٹے گزارنے ہوتے تھے، اس لڑکی سے آخر رہا نہ گیا اور چودھری کو مخاطب کر کے بولی:

What you said about Madam was shameful …and …..and disgusting!

ایک دم خاموشی چھا گئی اور سب چودھری صاحب کی جانب دیکھنے لگے۔ چودھری صاحب کچھ دیر انگریزی کے جملہ پہ غور کرتے رہے پھر اسی طرح نظریں جھکائے بولے:

“آپ کیلئے digesting ہوگا،

ہمارے لئے نہیں ہے۔”

اس پر ایک بے ساختہ قہقہہ بلند ہوا، اور غصیلی لڑکی بھی زیرِ لب مسکرا دی۔ اس دن ہم لوگ آپس میں disgusting کی جگہ ہمیشہ digesting ہی استعمال کرتے آئے ہیں۔ جیسے یار بڑا ای digesting بندہ اے

چند ماہ مزید گزرے، اور رفتہ رفتہ لوگ ایک دوسرے سے مزید آشنا ہونے لگے۔ ایسے میں کلاس ریپرزینٹیٹو (CR)کے انتخاب کا مرحلہ آیا۔ لڑکوں اور لڑکیوں میں سے چند امیدوار ووٹوں کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔ ایک دن ہم ڈسیکش ہال میں بیٹھے اونگھ رہے تھے، چودھری صاحب آئے اور ہمارے پاس سٹول پہ بیٹھ گئے۔ کچھ دیر سر جھکائے خاموش بیٹھے رہے، پھر بڑے گھمبیر آواز میں کہنے لگے :

“سرمد صاب ! ایس کالَج نوں بنڑے کنے کو سال ہو گئے ہوں گے”

“کوئی ڈیڑھ سو سال، اے خیال کیوں آیا چودھری صاب”

چودھری صاب مزید گھمبیر لہجے میں بولے

“ہمیشہ منڈے کڑیاں دے پچھے پھرے نیں، آج کالج دی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ وچ پہلی واری ایک منڈا اگے تے اک کڑی اودے پِچھے پھری اے “

ہم نے کہا فورا سے پہلے ہمیں اس تاریخی واقعہ سے آگاہ کیا جائے۔

تو کھلا یہ کہ غصیلی لڑکی نے بھی سی آر بننے کا فیصلہ کیا، اور اپنی کمپین کے دوران چودھری صاحب کو اناٹومی اور فارماکالوجی ہال کے درمیان بیٹھا پایا تو ان سے جا کر دریافت کیا کہ وہ کسے ووٹ دے رہے ہیں۔ چودھری صاحب جواب دینے کی بجائے خاموشی سے اٹھے اور اناٹومی ہال کی جانب چل دئیے۔ غصیلی لڑکی کو اس حرکت پہ مزید غصہ آیا اور وہ پکاری

“Hey, I am talking to you!”

مگر چودھری صاب سنی ان سنی کرتے ہوئے چلتے رہے۔ اب چودھری صاحب آگے اور غصیلی لڑکی پھنکارتی ہوئی پیچھے چلی آ رہی ہے۔ مگر چودھری صاحب چلتے رہے ، اناٹومی ہال میں جا پہنچے اور ہمیں یہ تاریخی قصہ سنانے لگے۔ اتنے میں غصیلی لڑکی بھی اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ ہال میں داخل ہوئی اور چودھری کے قریب سے گزرتے ہوئے بولی

Crazy

لیکن چودھری صاحب نے اس کو بھی تمغۂ حیا جانا۔

خدا کی قسم پاکستان اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک کہ……

یہ قصہ ہے اس واحد یومِ آزادی کا جو ہم نے ہاسٹل میں منائی۔

کالج میں کلاس ہم اسی باقاعدگی سے اٹینڈ کرتے تھے کہ جس باقاعدگی سے وزیراعظم اسمبلی میں حاضر ہوتے ہیں اور اس کا ہمیں کوئی افسوس بھی نہیں۔ زیادہ تر پروفیسر حضرات پرانی ٹیکسٹ بکس خبرنامہ کے انداز میں پڑھ دیتے اور یا وہ باتیں کہتے جو ان کی بیوی یا شوہر سننے کے روادار نہ ہوتے۔ اور ہاسٹل بھی کیا تھے، علم کی ساتھ ساتھ چرس، افیون، اسلحہ بھی بخوبی دستیاب۔ ایسے میں ایک بہت روایتی انداز کے پروفیسر صاحب کو ہاسٹل کا وارڈن تعینات کیا گیا۔

انہوں نے پہلی فرصت میں ایک تو تمام پھنے خانوں کو کان سے پکڑ کر کے نکال باہر کیا۔ اس کے بعد نظم و نسق پہ توجہ دی۔ اب ایک دن ہم رات کی طویل گفتگو کے بعد، سو رہے تھے کہ دروازے پہ دستک ہوئی، ہم نے نظر انداز کی، کہ فورا اس سے زیادہ شدت سے دستک دی گئی؟ ہم نے جواباً پنجابی کی ایک دو مغلظات عرض کیں۔ جس کے بعد دروازہ اتنی زور سے بجایا گیا کہ ہمیں لگا ٹوٹ جائے گا۔ غصہ کے مارے ہم اٹھے اور دروازہ کھولا تو آگے پروفیسر صاحب کھڑے تھے۔ ان کے پیچھے ہاسٹل کے کلرک جو زیرِ لب اور بالائے لب بھی مسکرا رہے تھے۔اور ان کے پیچھے کچھ اور نیم خوابیدہ طالبعلم۔ ہمیں حکم دیا گیا کہ اس جلوس میں شریک ہو جائیں۔ اسی طرح چند اور سوئے ہوں لڑکوں کو پکڑا گیا، فلور کے آخر میں مظفر آباد کے ایک جوان کا کمرہ تھا، اس پہ جو زور دار دستک دی گئی، دروازہ کھلا تو موصوف صرف شلوار میں ملبوس تھے جس کی نمی ابھی خشک نہ ہوئی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر سب کا قہقہہ بلند ہوا، اور پروفیسر نے پہلے اپنی ناک سکوڑی، اور پہلی دفعہ ہلکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پہ آئی اور اس کے ساتھ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آج کیلئے اتنا چھاپہ کافی ہے۔ پھر ہم سب کو اکٹھا کرکے اقبال کے شعروں کی روشنی میں ایک لیکچر دیا گیا۔

یومِ آزادی آیا تو پروفیسر صاحب نے ہاسٹل کے وسط پرچم کشائی کی تقریب منعقد کرائی۔ تلاوت کے بعد ہماری مسجد کے امام کو خطاب کی دعوت دی گئی، جنہوں نے ایسے محتاط الفاظ میں قائدِاعظم کی تعریف کی، کہ دیوبند بھی آڑے نہ آئے اور حب الوطنی کے چند چھینٹے بھی پڑ جائیں۔ اس کے بعد حیدرآباد کے ہمارے ایک دوست صدیقی صاحب آئے جن کا جوشِ خطابت، مسجد کے خطیب سے چار چند تھا، ڈائس پہ آئے۔ انہوں نے اپنی مٹھی بلند کی، پھر اس میں سے شہادت کی انگلی برآمد کی جس کا رخ آسمان کی جانب تھا اور زور سے چیخے:

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں

شاہیں کا جہاں اور ہے گرگٹ کا جہاں اور

“صدرِ ذی وقار ! اور میرے معزز ہم مکتب ساتھیو “

“گو کہ آج چودہ اگست ہے مگر!! خدا کی قسم پاکستان اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک ہر مزدور کو مزدوری نہیں مل جاتی۔”

“خدا کی قسم پاکستان اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک غریب کا چولہا ٹھنڈا ہے۔ “

“خدا کی قسم پاکستان اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک تمام مریضوں کو مفت علاج کی سہولت میسر نہیں آ تی۔ “

صدر ذی وقار بھی صدیقی صاحب کی تائید میں ہلکا ہلکا سر ہلاتے جا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر صدیقی صاحب کا رنگ مزید سرخ اور آواز مزید بلند ہو گئی اور لعاب کے چھینٹے برساتے ہوئے بولے:

“خدا کی قسم پاکستان اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک وڈیرا غریب ہاری کی بیٹی کی عزت لوٹتا رہے گا۔ “

یہ سنتے ہی پروفیسر صاحب کا ماتھا ٹھنکا، انہوں نے اپنے محبوب کلرک کو اشارہ کیا، اور اس نے صدیقی صاحب کے کان کچھ کہا ور ان کی تقریر ختم ہوئی۔ اس کے بعد پرچم کشائی اور ہماری ہاسٹل کی زندگی کی پہلی اور آخری یوم آزادی کی تقریب کا اختتام ہوا۔

لیکن آج بھی صدیقی صاحب کہیں ملتے ہیں، تو ہم سب انہیں کے انداز میں ہاتھ فضا میں بلند کر کے کہتے ہیں:

خدا کی قسم پاکستان اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا ….

فاسقی میں بھی سلیقہ چاہئیے

ن م راشد صاحب کی شاعری کے حسن میں تو بندہ کھو جاتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ آسانی سے سمجھ نہیں آتی۔ ان کی سب سے پہلی نظم جو میں نے سنی، شہرہ آفاق “حسن کوزہ گر” ۔ لفظ ایسے کہ گویا آہنگ کے موتی پرائے ہوں مگر سمجھ کچھ نہ آیا کہ حسن کون ہے، کیا چاہتا ہے، جہاں زاد کون ہے؟ جہاں زاد اور حسن کا تعلق کیا تھا۔ خیر بیسیوں بار یہ نظم پڑھی،یو ٹیوب پہ سنی اور جتنا اس کے لفظوں اور ترکیبوں پہ غور کیا، ایک ناگوار اور مکروہ حقیقت کھلنے لگی کہ جہاں زاد ایک بیسوا ہے مگر اتنی حسین کہ جس کے ساتھ حسن کوزہ گر ایک رات گزار کر ہی دیوانہ ہو کر اپنی عائلی زندگی سے نہ صرف غافل بلکہ متنفر و مایوس بھی ہو چکا ہے۔ پھر جب ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی “اے حسن کوزہ گر” پڑھی جس میں اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے تو مزید یقین ہو گیا۔

اب میرا ذہن بھی ایسا ہے کہ ادب اور واقعات کی کڑیاں ملاتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ یاد آیا کہ چند سال پہلے، گجرات کا ایک سنیارہ بھی ایک رات کی نشاطِ بے رہ روی سے ایسا بے خود ہوا کہ ایک وڈیو ریکارڈ کرکے اپنے دوستوں کو بھیج دی اور پھر جو دستور ہے کہ وہ وڈیو ہر فون پہ دیکھی گئی۔ آج اس کو دنیا بھولا ریکارڈ کے نام سے جانتی ہے۔ وہ کوئی نظم تو نہ کہہ سکا مگر اس کا فقرہ “جائداداں ویچنیاں پیندیاں نیں” ایک لطیفہ ضرور بن گیا۔

اب اس پہ پطرس بخاری کا لکھا ہوا ایک جملہ یاد آیا کہ “فاسقی میں بھی سلیقہ ہونا چاہئیے”۔ دیکھ ہی لیجئے سلیقہ ہو تو حسن کوزہ گر، نہ ہو تو بھولا ریکارڈ ۔ گو کہ عمل ایک ہے۔

اب اگر آپ آنند پال ستیہ صاحب کی نظم پڑھنا چاہیں تو درج ذیل لنک پہ پڑھ سکتے ہیں:

اے حَسَن کوزہ گر۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

عطیہ کی بدولت آج اک کافر مسلماں ہے

بھئی بہت ٹھسے کی عورت تھی۔ سر عبدالقادر پہ اس نے ڈورے ڈالنے کی کوشش کی، وہ مولوی آدمی تھا، بچ نکلا۔ سجاد یلدرم حیدر نے جلدی سے مجھ سے شادی کر کے اپنا پنڈا چھڑا لیا۔ شبلی بیچارہ آخری عمر تک اس کے پیچھے مارا مارا پھرا۔ شاید اس بڑھاپے کے عشق نے ہی اس کی جان لی۔ واقعی بڑھاپے کا عشق بڑا ظالم ہوتا ہے۔ اقبال سے اس کا سلسلہ رہا۔ بیچارے نے بڑے طویل فراقیہ خط لکھے، غزلیں لکھیں، شعر کہے، مگر شادی شدہ ہونےسے یا کسی اور وجہ سے اس کے دام سے بچ نکلا، ورنہ پتا نہیں اس کا کیا حشر ہوتا۔

آخر جب کسی کام کی نہ رہیں تو ایک یہود النسل مصور سے شادی کر لی اور وہ بیوی کے خاندانی نام کا دم چھلا اپنے ساتھ لگا کر فیضی رحمی لکھنے لگا۔ کتنی طنطنے والی عورت ہے۔ خاوند پر بے تکان حکم چلاتی ہے، ایسے کرو، یوں بیٹھو، جوان عورتوں سے مت ملو۔ جب میں کسی دعوت میں جاؤں میرے پیچھے پیچھے نظریں جھکائے چلو وغیرہ وغیرہ۔ اس کی شادی کی خبر سنتے ہی، عاشقِ صادق کی طرح چاہئیے تھا کہ شبلی غضب ناک ہو جاتے لیکن انہوں نے اپنے رقیب کی کامیابی کا سواگت ان الفاظ میں کیا:

بتانِ ہند کافر کر لیا کرتے تھے مسلم کو

عطیہ کی بدولت آج اک کافر مسلماں ہے

اللہ اکبر کیا فراخ دل لوگ ہوتے تھے اگلے زمانے کے۔ مجال ہے کہ معشوق کی کج ادائی کا رتی بھر برا منائیں۔ عطیہ بوڑھی ہو گئی ہے، مرنے کے قریب ہے مگرہر وقت بنی ٹھنڈی رہتی ہے۔ بوڑھی گھوڑی لال لگام والی مثال اس پر صادق آتی ہے۔ دعوتیں بے تحاشا اٹینڈ کرے گی۔ کیا مجال کہ کوئی سرکاری فنکشن چھوٹ جائے۔ سب سے پہلے جا موجود ہو گی۔ مردوں سے پہنچ کر ملے گی، ان سے مصافحہ کرے گی اور گھنٹوں ان سے باتیں کرے گی۔ شوہر ؛ بڈھے میاں بے خبر ان کے پیچھے پیچھے ہاتھ باندھے عقیدتاً چلیں گے۔ عجیب و غریب ہستی ہے عطیہ بیگم۔ مادرِ وطن مدتوں بعد ایسی دلچسب عورت پیدا کرتی ہے۔ فلسفہ انہیں آتا ہے، مذہب پر انہیں عبور ہے، شاعری ان کے گھر کی لونڈی ہے، مصوری کی وہ نقاد ہیں۔ موسیقی کی بات کیجئے تو معلوم ہو گا کہ وہ اس فنِ شریف کی بھی نائیکہ ہیں۔ معاف کیجئے نائیک کی تانیث یہی ہو سکتی ہے۔ رقص کے مشکل ترین توڑے تک انہیں یاد ہیں۔ موسیقی کے اوریجن پر انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ خدا کی قسم عطیہ بلا کی عورت ہے۔ وہ ایک فرد نہیں ایک ادارہ ہے، ایک کاک ٹیل ہے، چلتا پھرتا بائیوسکوپ ہے، متحرک بڑھیا ہے، شمعِ محفل ہے، جانِ عشرت خانہ ہے، خدا اس پر رحم کرے! کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔

یہ عطیہ فیضی بیگم کا وہ مکالمی خاکہ ہے جو نذر سجاد حیدر یلدرم نے ایوب ایلیا سے بات کرتے ہوئے کھینچا ہے۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیا دلچسب باتیں کرتی ہوں گی اور وہ کیا گود تھی جس میں قرۃ العین حیدر نے پرورش پائی۔ افسوس کہ نذرسجاد جیسی شخصیت کو ہم جانتے بھی نہیں تھے۔

چاک

ایک ننھا سا، ، گول مٹول سا، پیارا سا بچہ تھا۔

اور اس کے ماموں کی ایک ننھی سی، پیاری سی، گول مٹول سی بیٹی تھی۔ دونوں آپس میں بہت دوستی تھی۔ اکٹھے کھیلتے کودتے، اٹھکیلیاں کرتے تھے۔ پندرہ، سولہ سال کے تھے کہ ماں باپ نے منگنی کر دی۔

اور پھر یوں ہوا کہ بچہ بیمار ہو گیا۔

دس سال !! بیماری اور علاج کے اثرات

وہ بچہ نہیں رہا بے ہنگم جسم، غیر متناسب چہرہ، بے نور آنکھیں

وہ بچی اب بھی ویسی ہے

جنت و جہنم

بچپن میں چین کا ایک سفر نامہ پڑھا تھا، مصنف کا نام ذہن سے محو کو گیا ہے، جس یک ایک عبارت کچھ یوں تھی کہ چینیوں کا منظم و منسق معاشرہ اور خوبصورت شہر دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کروڑوں محنتی لوگ دوزخ میں جلائے جائیں گے!؟؟

ایسی ہی بحث ہمارے جماعت کے گروپ پہ ہورہی ہے۔

اب اس سوال کے چند ممکنہ جواب ہیں۔

۱- اتنے اچھے لوگ دوزخ میں کیونکر جا سکتے ہیں، اس لئے جنت و دوزخ کا کوئی وجود نہیں۔

۲- یہ لوگ بے شک اچھے ہوں ، جس کا اجر انہیں یہیں مل جائےگا۔ مگر کوئی ایسا کام کر رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے ان کو دوزخ میں جانا بنتا ہے۔

۳- یہ لوگ جنت میں ہوں گے اور سست و کاہل دوزخ میں۔

اب ان میں سے جو بھی آپ کے دل کو لگتا ہے وہ آپ مان لیں اور براہ کرم ہم سے بحث نہ کریں۔

تعارف

افتاد طبع تو کچھ ایسی تھی کہ خلوت میسر رہے اور پڑھتے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے، مگر والد صاحب نے کہا کہ کچھ سائینس پڑھ ورنہ کھائے گا کہاں سے۔ چنانچہ طب کو چنا اور اندازہ ہوا کہ طب کا شغل بھی ادب پڑھنے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ سو ادب و طب سے جو مشاہدہ جات ہوئے ہیں، ان میں سے بعض کو اپنی یادداشت کیلئے یہاں لکھتا ہوں۔

کرداروں کے نام اور مقامات پرائیویسی کی وجہ سے تبدیل کر دئیے ہیں۔

وعدۂ حور

سوئے وطن روانگی تھی، غیر ملکی ایئرلائن کی ولایتی ائر ہوسٹس نے وائن مینیو پیش کیا، کہ کونسی شرابِ ارغوانی سے آپ کی تواضع کی جائے، ہم نے کہا کہ بس آپ ہماری بھوک مٹانے کا اندولن کریں اور اس کو رہنے دیں۔ وہ آداب بجا لیتی چلی گئی اور ہم سوئیٹ کا تخلیہ میسر آتے ہی خدا سے کہنے لگے، میرے مالک، میرے خالق، دیکھ لے، یہاں کوئی دیکھنے والا بھی نہیں، شراب بھی میسر ہے اور اس کی قیمت بھی ایئرلائن والے ہم سے وصول کر چکے ہیں مگر اس کے باوجود تیرے حکم کی لاج میں ہم نے چکھی بھی نہیں۔ اب اگر تو نے جنت میں شراباً طہورا نہ پلائی تو نا انصافی ہوگی۔

ابھی اس سوچ میں تھے کہ ہاتف کی آواز آئی، پہلی بات تو یہ کہ تمہیں شراب کا نہیں کافی کا نشہ ہے، اور پچھلے دو گھنٹوں میں تین کپ غڑپ کر چکے ہو اور دوسری بات یہ کہ فلائٹ کے چند گھنٹوں میں زمینی شراب سے اجتناب کر رہے ہو، تو انصاف کے مطابق وہاں بھی ایسے ذائقے والی شراب تمہیں چند گھنٹے کیلئے مہیا کر دی جائےگی۔

نوٹ: کچھ ایسی ہی گفتگو حور کے متعلق بھی کی گئی۔