کیا پاکستانی عورت محبت کر سکتی ہے؟

ایک سپیس “کیا پاکستانی عورت محبت کر سکتی ہے؟ ” کے چیدہ نکات

‏۱- پاکستانی عورت محبت نہیں کر سکتی کیونکہ معاشرہ اُسے شادی پہ مجبور کرتا ہے۔

‏۲- شادی محبت کی قاتل ہے، اگر شادی نہ ہو سکے تو محبت قائم رہ سکتی ہے، مگر شادی کے بعد ، ناں مشکل اے

‏۳- پاکستانی عورت اگر محبت کرتی بھی ہے تو یہ سوچ کر کہ اس پدر شاہی معاشرے میں اپنا مقام بنانے کیلئے اُسے شادی کرنا ہے، اس لئے وہ درحقیقت محبت نہیں کر رہی ہوتی بلکہ رشتہ ڈھونڈ رہی ہوتی ہے۔ اور یوں معاشرہ اسے خالص محبت کے مواقع سے محروم رکھتا ہے۔

‏۳- شادی اور محبت کو الگ رکھنا چاہئیے، اگر آپ شادی میں محبت ڈھونڈیں گے تو شوہر سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لیں گے، یوں آپ کی شادی بھی خراب ہو گی اور محبت بھی حاصل نہیں ہو گی۔ (محبت کہاں ڈھونڈنی ، اس بارے میں کوئی وضاحت نہ کی گئی۔)

‏۴ ۔ مرد ہوس کا پجاری ہے، وہ شادی اور ذمہ داری سے بچنا چاہتا ہے۔

‏۵۔ مجبوریاں عورت کی ہوتی ہیں، مرد کے بہانے ہوتے ہیں۔ ورنہ حالت کیسے ہی کیوں نہ ہوں مرد اگر کسی خاتون سے شادی کرنا چاہے تو کر لیتا ہے۔

۶۔اگر شوہر عزت کرتاہے ، احترام کرتا ہے، اچھا پارٹنر ہے مگر اس کے باوجود عورت کو زندگی میں کچھ کمی محسوس ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے اُسے محبت نہیں ملی۔

‏۷- محبت کی شادی میں جب جھگڑے ہوتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ محبت نہیں تھی، جب حالات بہتر ہوتے ہیں تو لگتا ہے محبت ہے۔

۸۔ مرد کو محبت ہو جائے تو وہ کھل کر بتائے، بے عزتی کی پرواہ نہ کرے۔

‏۹۔ جوان مرد کی ذہنی سطح پانچ سالہ بچے کے برابر ہوتی ہے،اس کے ساتھ جوان عورت کی ذہنی ہم آہنگی ممکن نہیں۔ جب مرد ذہنی بلوغت کو پہنچتا ہے تو وہ بوڑھا ہو چکا ہوتا ہے۔ اس لئے محبت کے کشٹ میں نہ پڑیں۔

‏۱۰- محبت اور شادی کا آپس میں تعلق نہیں، آپ اکٹھے رہنا چاہتے ہوں تو رہ لیں مگر بچہ کا خیال ہو تو شادی ضرور کریں، یا کسی ایسے ملک میں رہیں جہاں کامن لا پارٹنر کا قانون موجود ہے، ورنہ اندیشہ ہے کہ مرد بھاگ جائیگا۔

ٹویٹر کے چند اکاؤنٹس کا بیان – قدامت پرست چچا

عملی طور پہ انہیں اپنی ناک سے آگے کچھ نظر نہ آتا ہو مگر ان کی فکری بصیرت گہرے سمندروں کہ تہہ میں پڑے موتی بھی دیکھ لیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تمام مذہبی لٹریچر کو ٹھوک بجا کر پرکھ چکے ہیں، اور اس کے بعد اس نتیجہ پہ پہنچے ہیں کہ فقہ حنفی، دیوبندی، حاضری، ناظری حق پر ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ گھر کے بازو میں مسجد کے امام بھی حنفی دیوبندی حاضری ناظری ہیں۔ انسان کتنا ہی عالم کیوں نہ ہو بشری خطاؤں سے پاک نہیں ہو سکتا، چنانچہ بھول چوک ان سے بھی ہو جاتی ہے۔ اخلاق باختہ فلمیں اورحواس باختہ مجرےدیکھ لیتے ہیں مگر کسی کو فارورڈ نہیں کرتے کہ ان کی بدولت کوئی گناہ کا شکار نہ ہو جائے البتہ حیا باختہ لطیفوں میں دوستوں کو ضرور شریک کرتے ہیں، آخر ہنسنانا نیکی کا کام ہے۔

ٹویٹر پہ ان کی آمد اپنے سیاسی خیالات کے اظہار کیلئے ہوئی۔ ان کی سیاسی بصیرت کی کہانی بھی دلچسب ہے۔ پڑھائی میں یہ کچھ سست تھے، اساتذہ اور گھر والوں کی ڈانٹ ڈپٹ نے عزتِ نفس کو کچل دیا تھا۔ اس مایوسی کے عالم میں جماعت والوں نے انہیں جہادِ افغانستان میں بہادری کے جوہر دکھانے کا مشورہ دیا تاکہ چار فرلانگ کے قصبے میں ان کی شہرت ہو جائے۔ یہ نہایت جوش سے مجاہد بنے مگر ہوا یوں کہ لڑائی کے دوران نشانہ کے ساتھ ان کا پیشاب بھی خطا ہو گیا ۔ چنانچہ کمانڈر صاحب نے مشورہ دیا کہ منصورہ میں جماعت کی لائیبریری کا کام سنبھالیں۔ اس ناقدری پہ جماعت کو خیر باد کہا، کچھ عرصہ بھٹکنے کے بعد نواز شریف کی سیاسی بیعت کرلی اور یہ سلسلہ اب تک قائم ہے۔لیکن اپنے فقہ کے ساتھ وابستگی کو بہرحال سیاست پہ مقدم رکھتے ہیں۔ سیاسی و فقہی مخالفین کو زچ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے دلائل کا وزن ان کی گالیوں سے بس ذرا سا کم ہوتا ہے۔ بے مہار خواتین کو سیدھا راستہ دکھانے میں کبھی نہیں جھجکے۔ وقتا فوقتا انہیں یاد دہانی کراتے رہتے ہیں کہ قوم کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں پہ کونسی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے۔

کئی روایت پسند خواتین انباکس میں ان سے خاندانی امور پہ مشورے لیتی رہتی ہیں۔ یہ ان کو خلوصِ دل سے مشوروں سے نوازتے ہیں مگر ان کا دل ہمیشہ روشن خیال خواتین میں اٹکا رہتا ہے۔ جب یہ کسی خاتون سے کہیں کہ “میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں” تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ٹھرک پوری ہے مگر مناسب موقع نہیں مل رہا۔ البتہ کسی کو بہن کہہ دیں تو یقینی بات ہے کہ اس میں انٹرسٹڈ نہیں ہیں۔ اپنی آزاد منش طبیعت کے باعث انہوں نے نوکری نہیں کی۔ والد کے کاروبار کو سنبھالنا شروع کیا اور ایک دو سال میں ہی زمین بوس کرنے والے تھے کہ چھوٹے انجینئیر بھائی نے اپنی نوکری سے استعفی دیکر نہ صرف کاروبار بچایا بلکہ پہلے سے بہتر کیا۔ ان کی حیثیت اب اعزازی صدر کی ہے مگر اللہ ہاتھ پیر پلائے بغیر دے رہا ہے تو کیوں نہ یہ اصلاحِ قوم کی خاطر ٹویٹر پہ وقت صرف کریں۔

نوٹ: اس کردار کے ساتھ کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔ ادارہ کو ذمہ دار نہ سمجھا جائے۔

ٹویٹر کے چند اکاؤنٹس کا بیان : آزاد خیال ماموں

انہوں نے متوسط طبقے کے ایک گھرانے میں پرورش پائی۔ بچپن میں ناظرہ قرآن محلے کی مسجد میں پڑھا، آخری پارے کی چند سورتیں بھی حفظ کیں۔ کہتے ہیں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ ذہانت، نیک سیرتی، فرمانبرداری کی بدولت قاری، استاد اور گھر والوں سے خوب داد سمیٹی۔ مزید داد سمیٹنے کے چکر میں فارسی، عربی میں بھی کچھ شدہ بدھ حاصل کی۔ صحیح بخاری کی کچھ احادیث اور تاریخِ اسلام کا مطالعہ اپنے شوق سے کیا۔ لڑکپن میں غالب، اقبال اور حالی کے بعد جون ایلیا، جوش ملیح آبادی اور اختر شیرانی سے متاثر ہوئے۔ پھر انگریزی ادب کے سستے ناولوں اور پندرہویں صدی کے انگریز فلاسفروں کے اردو تراجم سے استفادہ کیا۔ وہیں سے روش خیالی کے دروازے ان پہ وا ہوئے۔ لیکن تمام تر ذہانت اور مطالعہ کے باوجود محلے کی خوبصورت لڑکی کو متاثر نہ کر پائے۔ فکرِ معاش، خانہ آبادی، گریۂ طفلان نے اس کے بعد مزید مطالعے کا موقع نہ دیا۔ چالیس، پچاس کے پیٹے میں پہنچے تو سفید بالوں، بڑھتی توند اور مضمحل قوی نے احساس دلایا کہ وقت نکلا جا رہا ہے۔

فوتِ فرصتِ جوانی نے ان کی طبیعت میں وحشت پیدا کر دی۔ نوجوان لونڈے لونڈیوں کا اختلاط دیکھ کر ان میں جوانی کی رائیگانی کا رنج مزید گہرا ہو گیا۔ کچھ عرصہ ولایت میں بھی گزارا جہاں گوروں کے کچھ نہاں اور کچھ عریاں تعصب نے ان کو مزید رنجیدہ کر دیا۔ ان کی شدید خواہش ہے کہ پاکستانی یہودیوں کے ساتھ مل کر ہم واشنگٹن کے وسط میں مظاہرہ کریں تو گوریاں ان کی بلائیں لینے ٹکٹ لیکر کھڑی ہوں۔ عربی تلفظ اور ترکی ڈراموں سے سخت کوفت ہے۔ لسی کے کٹورے اور پان کی پیک میں انسانیت کی معراج دیکھتے ہیں۔ اپنے بچوں کو انگریزی کے علاوہ کسی دوسری زبان کی تعلیم دینا مناسب نہیں سمجھا، البتہ کسی پاکستانی کو عربی پڑھتا دیکھ لیں تو اپنے ذہن میں اس کا شجرہ نسب بنو امیہ سے ملا دیتے ہیں۔

اکثر سوچتے ہیں کہ کاش جوانی پھر سے لوٹ آئے اور مخلوط محافل میسر آئیں۔ ٹویٹر پہ اکثر آزاد خیالی کا پرچار اور قدامت پرستی کا رد کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی روش خیال خاتون کی شان میں گستاخی نظر آئے تو ڈھال بن کر سامنے آتے ہیں۔ چند ٹویٹس داغتے ہیں، اور پھر داد خواہی کی خاطر خاتون کے ڈی۔ایم کا رخ کرتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ڈھلتی عمر اور بڑھتی توند ہر مرتبہ آڑے آ جاتی ہے۔ خاتون بھی زیرِ بارِ احساں ہو کر ان کو چمکا رتی ہیں، “میرا شوہنا بھائی، میرا ذہین دوست” ۔ ان سے اپنے بچوں کی تربیت اور سہیلیوں کی طبیعت کے بارے مشورے لیتی ہیں۔ ان کی طبیعت ناساز ہو تو ٹی ایل پہ دعا بھی کرا دیتی ہیں۔ یا تھانے میں چھتر پڑیں تو ان کی آزادی کیلئے اپیل بھی کرتی ہیں۔ کبھی ان کو حسن و وجاہت کی کمی کا احساس ہو تو اپنے بچے یا کسی حسین رشتہ دار کی تصویر بھی ٹھوک دیتے ہیں، یا اپنی کوکنگ سکلز کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی کوئی نیکی سرزد ہو جائے تو تصویر لیکر اپلوڈ کرنا نہیں بھولتے۔ اس کا مقصد سراسر لوگوں کو ترغیب دینا ہوتا ہے ورنہ لائیکس بٹورنا انہیں سخت ناپسند ہے۔ ان کی ڈگریاں آفس کی بجائے بائیو میں آویزاں ہوتی ہیں۔

نوٹ: اگلا تھریڈ قدامت پرست چچا

ٹویٹر کے چند اکاؤنٹس کا بیان ۔ سلی بھائی

کچھ لوگ ادب دوست ہوتے ہیں، لیکن سلی بھائی کو میں کہوں گا کہ لفظ دوست ہیں۔ الفاظ سے ایسا برتاؤ کرتے ہیں جیسے کوئی یاروں کا یار اپنے دوستوں سے کرتا ہے۔ لفظ کے معنی ہی نہیں اس کے مزاج کو بھی سمجھتے ہیں۔ الفاظ کو یوں برتتے ہیں جیسے کوئی روایتی خاتون جہیز میں آئے ہوئے سامان کو۔

کہتے ہیں کہ ترجمہ محبوبہ کی طرح ہوتا ہے، خوبصورت ہو تو اصل عبارت کے ساتھ وفا نہیں کرتا، اور اصل کے قریب ہوتو خوبصورتی باقی نہیں رہتی۔ عربی اشعار اور اقوال کے تراجم جو انہوں نے کئے مفہوم کا حق بھی ادا کرتے ہیں اور عبارت کی چاشنی بھی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ان کا کام منفرد ہے کہ سادہ اور عام فہم الفاظ کے ساتھ عبارت میں حسن پیدا کر لیتے ہیں۔

ذہین، حساس اور رومانوی شخص معلوم ہوتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ کیوپڈ کے تیر سے گھائل ہوئے ہیں۔ ، گاہے بگاہے کچھ عشقیہ ٹویٹس بھی کرتے ہیں مگر ان میں بوالہوسی یا عامیانہ پن نہیں ہوتا بلکہ خلوص اور صداقت جھلکتی ہے۔

سیاست میں بھی کما حقہ دلچسبی رکھتے ہیں مگر سیاسی رائے میں بھی ان شخصیت کی متانت جھلکتی ہے۔ سستی نعرہ بازی اور پروپیگنڈا سے دور رہتے ہیں۔ کسی گروہ یا گروپ وابستہ نظر نہیں آتے۔ دھیمے انداز میں منطقی اور سلجھی ہوئی بات کرتے ہیں۔

ان کی ٹویٹ سے پتا چلا کہ عطیہ کی ہوئی آنکھوں سے انہیں دوسری بار بینائی کی نعمت ملی، شاید اسی لئے انسانی حسن سے بھی بڑھ کر قدرتی مناظر کے شیدائی ہیں جو ان فلیٹ میں نظر آتے ہیں۔

سوشل میڈیا پہ جہاں منفیت، سستی جذباتیت، گروہ بندی کا دور دورہ ہے، وہاں ان جیسے لوگوں کا وجود ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔

ٹویٹر کے چند اکاؤنٹس کا بیان۔ شہلا عاصم

کچھ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ٹویٹر گردی کرتے” نیا دور “پہ شائع ایک تحریر نے چونکا دیا۔ باورچی خانے میں مصروف ایک خاتون کا رومانوی ناسٹیلجیا جو دل میں ایک میٹھا سا درد جگا دیتا ہے۔ اس خیال کی کئی تحریریں پہلے بھی پڑھ رکھی تھیں جو کہ ملال اور اضمحلال سے پُر ہوتی ہیں مگر اس تحریر کی ہیروئن ان لطیف رومانوی جذبوں کی یاد کے باوجود اذیت، یا دکھ میں مبتلا نظر نہیں آتی تھی ۔ بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کا ماضی اورحال، اس کے گھر کے در دیوار اور اس کا خیال، مل کر ایک پر فیکٹ فنپارہ تشکیل دئے ہوئے ہیں، جس میں ہر شے ترتیب سے مناسب مقام پہ رکھی ہے۔ چولہے پہ رکھے ہوئے پریشر ککر کی آواز ، اس کے دل کی آواز سے ہم آہنگ ہے۔ وہ کچن کی کھڑکی سے بھی یوں جھانکتی ہے کہ گویا اپنی روح میں جھانک رہی ہے۔

مصنفہ کا اکاونٹ دیکھا تو ۲۵، ۳۰ کے لگ بھگ فالورز اور نام شہلا عاصم۔ تصویر ندارد۔ میرے ذہن میں فوراً کالج کی ایک استاد میڈم شہلا آئیں۔ میڈم شہلا ادھیڑ عمر تھیں انتہائی شفیق، مہربان مگر کم گواور سنجیدہ۔ مصنفہ بھی چشمِ تصور میں ہمیں کچھ ایسی ہی نظر آئیں۔ ہم نے اس اکاؤنٹ کو فالو کیا۔ چند دن بعد مصنفہ کی تصویر ڈی پی میں نظر آئی۔ تحریر نے تو چونکایا تھا، تصویر نے ہکا بکا کر دیا۔ ہم تو کوئی متانت و وقار کا پیکر سفید بالوں والی خاتون سمجھے تھے مگر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک نوجوان، بیضوی چہرہ جس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ کیمرہ مین کے پیچھے چھوٹا بھائی اپنی بہن کا منہ چِڑا رہا ہے اور وہ تصویر کیلئےبمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کئے ہوئے ہے۔ جونہی کلک سنے گی تو کھلکھلا کر ہنس دے گی۔

رفتہ رفتہ ان کی مزید تحریریں پڑھیں، ٹائم لائن پہ انٹریکشن ہوئی تو اندازہ ہوا کہ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ تحریریں انتہائی سنجیدہ مگر مزاج خوشگوار۔ طبیعت حساس ہے، لوگوں کے دکھ درد کو محسوس کرتی ہیں مگر ہمہ وقت غم کا طوق گلے میں ڈالے نہیں رکھتیں۔ جہاں زندگی کے تکلیف دہ پہلو دیکھتی ہیں وہاں اس سے خوشیاں کشید کرنا نہیں بھولتیں۔ لوگوں سے بالعموم حسنِ ظن رکھتی ہیں۔ فضول کی بحث اور جھگڑوں میں نہیں پڑتیں، تنقید کو خوش دلی اور خندہ پیشانی سے قبول کرتی ہیں، مگر لوگوں کی سخت تنقید بھی ان کو اپنا انداز بدلنے پہ مجبور نہیں کرسکتی۔ لکھیں گی اسی طرح جیسا من چاہے۔ اپنی روایت اور ثقافت کی کمزوریوں کا ادراک رکھنے کے باوجود اس سے جڑی ہوئی ہیں۔ وطن سی شدید محبت رکھتی ہیں اور اپنے خاندان سے شدید تر۔ آپ شہلا کے “abstract thoughts” سے میری طرح اکتا بھی چکے ہوں تو ان کے شگفتہ اور برجستہ کمنٹس سے پھر بھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔

ٹویٹر کے ان چند اکاؤنٹس میں سے ہیں کہ آپ کی سیاسی یا مذہبی وابستگی جو بھی ہو، شہلا کی ٹویٹس پڑھ کر آپ کا فشارِ خون بلند نہیں ہوگا۔ ٹویٹر پہ خوشگوار موڈ رکھنے کیلئے فالو کریں @ShehlaNatt

ڈاکٹر صبیحہ

ہماری ٹریننگ شروع ہوئی تو ڈاکٹر صاحبہ ہماری سینئر تھیں۔ ہمدرد، مشفق، خلیق اور حلیم۔ سپید رنگ، ناک تیکھا مگر چہرے کی نسبت ذرا چھوٹا، جس پہ موٹے شیشوں کی عینک جو اکثر پھسل کر نیچے کو آجاتی اور یہ اس کو بار بار انگلی سے ٹھیک کرتی رہتیں۔ چہرے پہ اتنی سنجیدگی کہ بچپن کی فوٹو میں بھی پچپن کی محسوس ہوتیں مگر ہنستی تو پورے بدن کو شریکِ انبساط کرتیں۔

صبر و تحمل کے ساتھ مریض کسی بات سنتیں، آرام سے علاج کے بارے میں سمجھاتیں ۔ نوٹس اتنی خوشخطی اور وضاحت سے لکھتیں کہ فریم کرانے کو جی چاہے۔ کام اتنی تسلی سے کرتیں کہ شام کے پانچ بج جاتے ، مگر جونئیر ز پہ سختی نہ کرتیں کہ ان کے ساتھ رکیں۔ جس نے اپنا کام نبٹا لیا وہ بخوشی جائے۔ بس ان کو چائے اور سینڈ وچ میسر رہیں ، تو مصروفیت سے کبھی نہ گھبراتیں۔ اس طرزِ زندگی کا اثر البتہ یہ ہوا کہ گداز جسم ، اچھا خاصہ فربہ ہو گیا۔

ٹک کر پڑھنے میں خاصی سست تھیں مگر تجربہ اور ذہانت سے اس کی کمی پوری کر لیتیں۔ مریضوں میں انتہائی مقبول تھیں مگر پڑھائی میں محنت نہ کرنے کے باعث پوسٹ گریجویشن نہ کر پائیں۔ رفتہ رفتہ جونئیر ز ان سے سینئیر ہوتے گئے اور پھر پوسٹگریجویشن کے بغیر بڑے ہسپتالوں میں کام کرنا ممکن نہ رہا۔

ارینجڈ میرج کی قائل نہ تھیں مگر سارا دن ہسپتال میں کام کرتے، کہاں اتنے لوگوں سے ملاقات ہوتی کہ مرضی کا جیون ساتھی مل سکے۔ ایک چھوٹا بھائی تھا جو والدین کے پاس رہتا تھا اور یہ خاندان کی مالی مدد کر تیں۔ جب ہسپتال والوں نے کہہ دیا کہ پوسٹ گریجوشن کے بنا کام ممکن نہ ہو گا تو کینیڈا چلی گئیں مگر والدین جانے کو تیار نہ ہوئے۔ وہاں اکیلی رہتی ہیں۔

آج فیس بک میموریز کی تصویر میں دکھائی دیں تو خیال آیا کہ اچھی فطرت تدبیر کی کمی پوری نہیں کر سکتی۔

ڈاکٹر ہمدرد خان ۔ایم بی بی ایس۔ ایف سی پی ایس

ہمدرد خان سکول میں ہمارے ہم جماعت ، اور اب ہمارے کولیگ ہیں۔ انتہائی گورا چٹارنگ، بیضوی چہرہ ، کشادہ پیشانی اور ستواں ناک۔ مگر بات کرنے کو منہ کھولتے ہیں تو مخاطب سوچتا ہے کاش یہ خاموش رہتے اور ان کے دانتوں کا دیدار نہ ہوتا۔ سامنے کے دانت یوں ہیں کہ گویا شاہی قلعہ کی شکستہ دیوار، جس کی بعض اینٹیں سرمئی، بعض خاکستری ہیں جبکہ بعض پہ سفید روغن ابھی باقی ہے۔

فوجیوں کی ٹوپی ترچھی ہوتی ہے، ان کی چال ترچھی ہے۔ دایاں کندھا ہمیشہ پیچھے کو کھینچا رہتا ہے، اور دایاں بازو ساکن، جبکہ بائیں بازو کو ہر قدم کے ساتھ نصف قوس میں ہلاتے ہیں۔ دیکھنے والے کو اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کا رخ کس جانب ہے، آیا سیدھا آ رہے ہیں یا دائیں مڑنے والے ہیں۔ بعینہ یہی معاملہ ان کے دماغ کا ہے۔ سوچ کی رو کسی سمت کسی وقت بہہ نکلتی ہے۔

ڈیپارٹمنٹ کوئی شخص نیا آجائے، ان کی حالت یوں ہو جاتی ہے کہ گویا “انگ انگ پھڑکے مرا”

نوواردمریض دیکھنے جائے گا تو یہ ساتھ ہو لیں گے، خود مریض کا انٹرویو کریں گے پھر اسے پلان لکھوائیں گے اور اصرار کریں گے کہ جوں کا توں لکھا جائے۔ نووارد اگر خود مریض سے کچھ پوچھنے کو کوشش کرے گا تو فوراً اسے ٹوک دیں گے کہ جب انہوں نے علاج تجویز کر دیا ہے تو اس میں کسی مزید بہتری کی گنجائش نہیں۔ ضرورت پڑے تو جونئیر کو بازو سے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے کہ بس کم نے جو کہہ دیا کافی ہے۔

یہ اس کو یوں دیکھتے ہیں جیسے بھوکا شیر ریوڑ میں اپنے شکار کو تاکتا ہے۔ طریقہ واردات ان کا یہ ہے کہ نئے آنے والے کے سب سے بڑے ہمدرد بن کر سامنے آتے ہیں۔ کسی نرس نے کال کی، یہ فوراً دخل انداز ہوئے، یہ نیا سمجھ کر تمہیں تنگ کر رہی ہیں، میں ابھی سیدھا کرتا ہوں۔ پھر فون اٹھا کر نرس سے الجھنے لگے۔ ہسپتال کے تمام اہم لوگوں سے بہت بے تکلفی سے مخاطب ہوں گے، کہ نو وارد سمجھے گا شاید ان کے جگری ہیں۔ ڈیوٹی روسٹر کو دیکھ کر نئے آنے والے کو یقین دلائیں گے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، پھر روسٹر بنانے والے کو اونچی آواز میں صلواتیں سنائیں گےاور اس کی گو شمالی کا وعدہ کریں گے۔

چونکہ ذہین ہیں اس لئے مریض کے فوری مسئلے کو تو سمجھ جاتے ہیں مگر اپنی جلد بازی کی وجہ سے مریض کو ممکنہ پیچیدگیوں سے بچانے کیلئے جو اقدامات حفظ ما تقدم کے طور پہ کرنے ہوتے ہیں ان میں بسا اوقات کمی رہ جاتی ہے اور پھر بیچارہ نیا ڈاکٹر صلواتیں سنتا ہے۔ نووارد پہ مقصد اس التفات کہ یہ ہوتا ہے کہ نووارد ایک مرتبہ قابو آ جائے تو بس اس کو بغل میں لئے پھریں۔ کیونکہ انہیں بے انتہا شوق ہے کہ اپنی باتیں سنانے کو ہمہ وقت کوئی موجود ہو۔ بے تکان بولتے چلے جاتے ہیں۔ ایک دن ہم نے مزاحاً کہا بھابھی آپ کی باتوں سے جزبز نہیں ہوتیں کہنے لگے وہ تو رو پڑتی ہے۔

آج کل دو نئے پرندے آئے ہوئے ہیں، خدا ان کی حفاظت فرمائے۔

جج کا کتا

مجسٹریٹ نجم شاہ کالی واسکٹ اور کاٹن کے سفید سوٹ میں ملبوس صدر بازار کا دورہ کر رہا تھا۔ ایک سنتری چھتری تانے اس کے ساتھ جبکہ پیچھے پولیس کی ایک ٹولی چلی آ رہی تھی۔ بازار کے وسط میں چھوٹا بلڈوزر کھڑا تھا۔ دکانوں کے بڑھے ہوئےچھجے گرا دئیے گئے تھے اور ان کے ملبہ نے کہی جگہوں سے نالی بند کر دی تھی، جس کی وجہ سے بدبودار پانی سڑک پہ رستا چلا آ رہا تھا۔ کوئی چھابڑی والا دور دور تک نظر نہیں آ رہا تھا۔ اچانک بغلی گلی سے شور اٹھا۔ نجم شاہ نے دیکھا تو ایک بھاری بھرکم شخص ہانپتا ہوا ایک چھوٹے سے سفید کتے کے پیچھے بھاگا چلا آرہا تھا۔

“پکڑو اس کتی کے بچےکو

جانے نہ پائے

پکڑو ۔ پکڑو”

ایک لڑکا نے پتھر اٹھا کر کتے کو دے مارا جو اس کی پچھلی ٹانگ پہ لگا۔ کتے نے تین ٹانگوں پہ دوڑ جاری رکھنے کی کوشش کی۔ موٹا آدمی اس کے قریب پہنچا ہی تھا کہ پانی کی پھسلن سے گر پڑا مگر کتے کی ایک ٹانگ اس کے ہاتھ میں آ گئی۔ دکاندار جو اپنا مال سمیٹنے میں مصروف تھے تماشا دیکھنے کو جمع ہو گئے۔

“ایدھر تو کوئی مسئلہ اے سر جی”

سنتری جو نجم شاہ کے سر پہ چھتری تانے چل رہا تھا اپنے پنجابی لہجے میں بولا۔ نجم شاہ اپنی پولیس ٹولی سمیت بھیڑ کے نزدیک پہنچا تو کتا سیمنٹ اور پتھروں کے ڈھیر کے پہ کھڑا تھا اور اس کی ایک ٹانگ موٹے آدمی کے ہاتھ میں تھے، جبکہ اس کے دوسرے ہاتھ سے خون رس رہا تھا۔ پولیس ٹولی کی قیادت کرتا حوالدار رعب دار آواز میں بولا : “اوئے شور کیوں مچاندے او، دیکھتے نئیں مجسٹریٹ صاب دورہ کر رے ہیں۔”

موٹے شخص نے اپنا خون آلود ہاتھ سیلیوٹ کے انداز میں پیشانی تک لایا اور بولا: “حضور میں سنیارے کی دکان میں کاریگر ہوں، آج چائے کے کھوکھے پہ آیا تو اس کتے نے میری انگلی پہ کاٹ لیا۔ میرا باریکی والا کام ہے، میری تو ایک ہفتہ کی دیہاڑی ماری گئی!

ان انگریزی فلموں کی وجہ سے لوگوں کو آج کل اس نجس کو جانور پالنے کا کیوں شوق ہو گیا ہے جی!

حضور انصاف کریں اور میرا نقصان پورا کرائیں”

نجم شاہ نے کھنگار کے گلا صاف کیا اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا :

“حوالدار پتا کراؤ اوئے یہ کتا ہے کس کا؟

“ایک تو لوگ کتے پالتے ہیں اور پھر انہیں کھلا چھوڑ دیتے ہیں!

“اب چوروں کی حکومت نہیں ہے کہ کوئی قاعدہ قانون نہ ہو! “

“اس کے مالک کو پیش کرو صبح میری عدالت میں۔۔۔۔ اور ۔۔۔ یہ کتا تو باؤلا لگتا ہے۔ اس کو ابھی گولی مارنی پڑے گی۔۔۔۔کہیں اور لوگوں کو نہ کاٹے”

ہاتھ میں چھوٹی سی درانتی اور کٹر پکڑے ایک مالی بولا: “سر جی یہ کرنل ادیب کا کتا ہے۔ میں ان کے لان کی صفائی کرنے گیا تھا ، مالی ہوں میں نے کل ان کے گھر دیکھا تھا۔ پشلی گلی میں ای ہے ان کا گھر۔ ”

نجم شاہ کادا یاں ہاتھ اپنی مونچھ سے واپس واسکٹ کی جیب میں جا پہنچا۔ اس نے کاریگر کو مخاطب کیا “ اتنے لحیم شحیم تم بندے ہو، گناواں دی پنڈ ! ہیں! اس چھوٹے سے کتے نے تمہیں کاٹ کیسے لیا؟

یہ تو چھلانگ بھی لگائے تو تمہارے گوڈے تک نہ پہنچے”

“سر جی بڑے جھوٹے لوگ ہیں اس بزار کے۔ اس کی انگلی کام میں زخمی ہو گئی ہو گی۔ اس نے سوچا کسی شریف آ دمی سے معاوضہ وصول کروں۔ بڑی چنگی طراں جانتا ہوں ان کو “ حوالدار نے لقمہ دیا۔

کاریگر نے احتجاجاً دہائی دی “ سر جی میں کیوں جھوٹ بولوں گا۔ میں غریب بندہ ہوں، دیہاڑی کے بغیر تو کھانے کو نئیں ملے گا مجھے۔

قنون سب کیلئے برابر ہونا چاہئیے۔ میرا سالا بھی فوج میں صوبیدار ہے جی”

نجم شاہ کو اس کی بات اچھی نہ لگی “ تیرے سالے کی ماں کی آنکھ! مجھے قنون بتائے گا تو؟ مجسٹریٹ درجہ اوّل کو”

اتنے میں پولیس ٹولی میں سے ایک سنتری آگے آیا اور مجسٹریٹ کے پاس آ کر کہنے لگا “ سر میں کرنل صاحب کے گھر میں ڈیوٹی دیتا رہا ہوں۔ بہت متقی آدمی ہیں، گھر میں کبھی کتا نہیں رکھا۔ یہ ان کا ہو ہی نہیں سکتا۔ “

“تمہیں یقین ہے؟” نجم شاہ نے سنتری سے پوچھا؟

“جی سر”

“ٹھیک کہتے ہو بھلا کرنل صاحب جیسے با شرع آدمی گھر میں کتا رکھیں گے!

انگریز کنویں میں چھلانگ لگائے گا تو یہ براؤن صاحبان بھی کنویں میں ڈوب مریں گے۔

کاریگر فکر نہ کرو۔ تمہیں انصاف ملے گا۔ “

“سر جی وہ کرنل صاحب کا ڈرائیور آ رہا ہے، اس سے پوچھ لیتے ہیں۔ “

“امام بخش ایدھر آؤ ، یہ کتا کرنل صاحب کا ہے؟ ” حوالدار گرجا

“نہیں صاب، یہ تو ان کے بھائی کا ہے۔ کل ہی وہ اسلام آباد سے آئے ہیں صاحب سے ملنے۔

یہ کتا کہیں صبح نکل گیا، میں اسے ہی ڈھونڈ رہا تھا۔ “

“اووہ ! یہ جسٹس حبیب صاحب کا کتا ہے؟ “ نجم شاہ نے سوال کیا۔

“جی صاحب”

“اوہو ہا ہا ہا ہا

کتنا پیارا ہے”

“ہا ہا ہا ہا”

“اچھا جسٹس صاحب کو بولنا نجم شاہ نے سلام بھیجا ہے۔

میں کل آؤں گا ملنے”

“لے جاؤ ، پپی کو اور گیٹ بند رکھا کرو ۔ ہہہہا”

نجم شاہ پھر کاریگر کی طرف مڑا “اوئے اس دفعہ تم ہےان چھوڑ رہا ہوں، اگلی دفعہ بے رحمئ حیوانات کی دفعہ لگا کر اندر کر دوں گا۔”

“نکل جا جس گلی سے آیا تھا”

This is urdu translation of Anton Chekhov’s short story; The Chameleon.

بیوہ

فہمیدہ بے حد رنجیدہ خاطر تھی۔ اس کے خاوند نے چند دن پہلے ایک نوجوان بیوہ سے شادی کر لی تھی۔ گھر کے کام کاج، نماز، تلاوت اور اذکار کے باوجود بے چینی دور نہ ہو پا رہی تھی۔ ذہنی سکون کیلئے اس نے اپنی مذہبی اقدار اور پاکیزہ خیالات سے مدد چاہی۔ فہمیدہ خلوصِ دل سے یقین رکھتی تھی کہ شریعت کے تمام احکام انسان کی فلاح کیلئے ہیں اور پھر بیوہ کے ساتھ نکاح اور چھوٹے سے یتیم بچے کی کفالت تو مستحب ہے۔ مگر سب لا حاصل۔ وہ بار بار اسی نتیجے پہ پہنچتی رہی جو اس کا بد مذہب بھائی کہتا تھا کہ مقصود ایک ہوس پرست شخص ہے اور اس شادی کی آڑ میں اپنی شہوت کی تکمیل چاہتا ہے۔ اور یہ خیال اس کا دل مسل دیتا۔

چار دن سے وہ میکہ میں تھی اور اس کا بھائی عامر آتے جاتے مولویوں کو گالیاں دیتا اور کبھی مقصود پہ طعنہ بازی کرتا۔ فہمیدہ مزید غمزدہ ہو جاتی۔ بھاوج اور سہیلیوں کی نظریں سوال کرتی نظر آتیں

“نسرین نے تمہاری دوست بن کر مقصود پہ ڈورے ڈالے، تم یوں ہی اس بات کو جانے دو گی؟”

مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ اسے کیا کرنا چاہئیے۔ دالان میں بیٹھی تھی کہ دروازہ کی گھنٹی بجی، اس کے بھائی نے دروازہ کھولا۔ فہمیدہ کا دیور ہاتھ میں کچھ پکڑے کھڑا تھا، اس نے نجانے کیا کہا کہ عامر چیخ کر بولا “اس حرامزادے سے کہہ دو ہم مرے نہیں ہیں کہ اپنی بہن کی کفالت نہ کر سکیں اور دوبارہ ادھر کا رخ نہ کرنا” ۔ فہمیدہ کو دیور کی بے عزتی اور دُکھی کر گئی، وہ بھلا مانس شخص تھا جو ہر ایک سے اچھا معاملہ کی کوشش کرتا۔ وہ بے خیالی میں اٹھ کر چھت پہ آ گئی اور اپنی تسبیح گھمانے لگی۔ نسرین کے شوہر کی وفات کے بعد فہمیدہ نے باقاعدگی سے اس کی مالی مدد کی اور پھر وہ تو فہمیدہ سے تجوید سیکھنے اس کے گھر آتی تھی، پھر یہ کب ہوا اور کیسے ہوا کہ نوبت نسرین اور مقصود کی شادی تک آ پہنچی؟ اس نے سر اٹھا کر آسمان کی جانب جواب طلب نظروں سے دیکھا مگر کسی غیبی اشارےکی بجائے چند مردہ بادلوں کے سواکچھ دکھائی نہ دیا۔ الٹا دھوپ سے اس کی آنکھیں چندھیانے لگیں اور اسے اپنے گالوں پہ آنسووں کی نمی محسوس ہوئی۔ سینے کی گھٹن میں مزید اضافہ ہو گیا، اور فہمیدہ سوچنے لگی کہ اس کی روح کب تک اس شکنجہ میں پھنسے رہے گی۔ وہ نہ تو اس حقیقت سے انکار کر سکتی تھیں کہ نسرین اور مقصود نے خلافِ شرع کچھ نہیں کیا اور نہ اس امر کو قبول کر سکتی تھیں کہ جس عورت کی وہ نیک نیتی سے مدد کر رہی تھی، اس نے نہ صرف اس کا شوہر ہتھیایا بلکہ دنیا کی نظروں میں ذلیل بھی کروایا۔

اسے یاد آیا کہ شادی کے چوتھے دن وہ اور مقصود مونال میں کھانا کھانے گئے تھے، وہ سوچنے لگی کہ کیا مقصود نسرین کو بھی ایسے ہی پیار کرتا ہوگا جیسے اسے کرتا تھا۔ اس نے چشمِ تصور میں دیکھا کہ نسرین مقصود کے لطیفوں پہ کھلکھلا رہی ہے، اور اس کے بازو کی مچھلیوں کو سہلا رہی ہے، جبکہ وہ یہاں گرمی میں چھت پہ پسینے سے شرابور بیٹھی ہے۔

پھر اسے خیال گزرا کہ کیا ان کی شادی سے پہلے بھی ایسا ہوا ہو گا؟

کیا معلوم جب وہ میکہ آتی تھی تو نسرین اس کے گھر کا چکر لگاتی ہو؟

جب مقصود دو دن کیلئے سکھر گیا تھا، شاید وہ نسرین کے گھر میں ہو؟

یہ سوچ کر فہمیدہ کی مٹھیاں اتنی زور سے بھنچیں کہ ہاتھ میں پکڑی تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ گیا اور دانے گر کر فرش پہ بکھر گئے۔ وہ خالی ذہن سے دانوں کو تکنے لگی۔ آج اسے ان دانوں میں کوئی تقدس نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے باقی ماندہ تسبیح بھی فرش پہ پھینک دی اور بےدھیانی سے فون نکال کر دیکھنے لگی۔ وٹس ایپ کھولا، سہیلیوں کے میسج پڑھنے کی ہمت نہ ہوئی اور انہیں یوں ہی چھوڑ کر نیچے سکرول کرنے لگی۔ اس کی نظر ایک نمبر پہ پڑی جسے سیو نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے پھوپھی زاد سانول کا نمبر ! جس کا رشتہ اس نے ٹھکرا دیا تھا۔ نظر جمائے وہ اس نمبر کو غور سے دیکھتی رہی اور اچانک گویا تمام گتھیاں سلجھ گئیں۔ دل کی بے چینی دور دور ہو گئی، اور روح کو قرار آ گیا۔ وہ جان گئی کہ اسے کیا کرنا ہے۔ فہمیدہ نے مقصود کا نمبر ملایا اور کہا کہ جمعے کی شام وہ تیار رہیگی اسے لینے آجائے۔ اس کا گھر اس کا سسرال ہے، وہ وہیں رہے گی، نسرین کے ساتھ!

اس نے مقصود سے فرمائش کی کہ وہ اسے بائیک پہ لینے آئے جیسے دس سال پہلے، شادی کے شروع کے دنوں میں میکے سے لینے آتا تھا۔ جمعے کے دن عامر نے لاکھ لعن طعن کی مگر فہمیدہ مقصود کے ساتھ جانے پہ بضد رہی۔ آخر تھک ہار کر عامر بھی خاموش ہو گیا کہ شاید قدرت کو یہی منظور ہے۔ آدھ گھنٹے بعد عامر کو فہمیدہ کی کال آئی وہ چیخ رہی تھی کہ ایک شخص نے موبائل چھیننے کی کوشش کی اور مقصود کو گولی لگی ہے۔ عامر کے ہاتھ کانپنے لگے، اس نے گاڑی نکالی اور فہمیدہ کی بتائی ہوئی جگہ پہ پہنچ گیا۔ چند تماشائی اور پولیس کی موبائل وہاں کھڑی تھی ، فہمیدہ زمین پہ بیٹھی رو رہی تھی اور مقصود کی لاش کے پاس کھڑا تھانیدار سوچ رہا تھا کہ موبائل چھیننے والے نے مزاحمت پر پوری چھ کی چھ گولیاں مقصود کے سینے میں کیوں اتار دیں؟

بیمار مسیحا

ایک صاحب نے فرمائش کی کہ ان کے مشہور و معروف ڈاکٹر دوست اپنے معالج سے مطمئن نہیں، اور دوسری رائے لینا چاہتے ہیں، ہم نے آپ کا نام تجویز کیا ہے، آپ انہیں دیکھ لیں۔ ہم نے ٹال مٹول سے کام لیا کیونکہ ہمارا تجربہ ہے کہ ایسے “اہم” حضرات کو اکثر علاج سے زیادہ آیا گیری کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ ان سے غیر جذباتی ہو کر حقیقت بیان کریں تو مطمئن نہ ہوں گے، اور اگر آپ کی بے بی سٹنگ سے راضی ہو جائیں تو ناک پہ خارش بھی ہوتو جھٹ آپ کو کہیں گے، آج کھجلی ہو رہی ہے، کہیں کچھ مسئلہ تو نہیں۔چند دن بعد اس دوست کاپھر سے فون آ گیا، اس دوران ہمیں بھی ڈاکٹر صاحب کے محکمے میں ایک کام آڑے آ چکا تھا، سو ہم نے کہا ٹھیک ہے جی، بھیج دیجئے۔ کہانی وہی پرانی تھی، ڈاکٹر صاحب عرصہ سے علیل، بیماری خاصی بڑھ چکی ہے مگر علاج میں سستی اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ ذہنی طور پہ مرض کو تسلیم نہیں کر پا رہے۔ معالج نے ان کیلئے بہت مناسب علاج تجویز کیا ہے مگر نہ دوا کھاتے ہیں نہ معالج کے پاس جاتے ہیں۔ کیس اظہر من الشمس تھا، مگر ان کو سامنے بٹھا کر ہم نے کچھ دیر ان کے ٹیسٹوں میں غرق ہو جانے کی اداکاری کی، پھر ایک دو لمبی سی ٹھنڈی آہیں بھریں، دراز سے کاغذ اور پینسل نکالا۔ اس پہ دو تین نتائج لکھے اور انہیں ایک عام شخص کی طور پہ لیتے ہوئےسمجھایا کہ کون سی علامت کس وجہ سے ہے۔ پھر کہا کہ کونسی دوا مرض کی علامات کو کس طرح کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ اس کے بعد علاج کے مزید مراحل جن سے وہ جان چھڑانا چاہتے ہیں، اس میں بس چند ماہ کا وقت رہ گیا ہے۔ خیر ۳۰-۴۰ منٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب وہی علاج استعمال کرنے پر بخوشی تیار تھے جو ان کے پہلے معالج نے تجویز کیا تھا۔وہ گئے اور ہم سوچ میں پڑ گئے کہ زندگی کے بارے میں ہماری عمومی رویہ ایسا ہی ہے۔

حقیقت نہ پیچیدہ ہے نہ مبہم۔ ہاں تکلیف دہ اور پریشان کن ضرور ہے۔ ہم کسی ایسے سادھو یا مرشد کی تلاش میں رہتے ہیں جو اس کڑوی گولی میں تھوڑی سی مٹھاس بھر دے کہ نگلنے میں آسانی ہو۔

ہماری بھی تمام عمر آئینے بدلتے گزری ہے، کہ شاید کوئی ایسا شیشہ ہاتھ آ جائے جس میں اپنا عکس اچھا دکھائی دے۔