ٹویٹر کے چند اکاؤنٹس کا بیان – قدامت پرست چچا

عملی طور پہ انہیں اپنی ناک سے آگے کچھ نظر نہ آتا ہو مگر ان کی فکری بصیرت گہرے سمندروں کہ تہہ میں پڑے موتی بھی دیکھ لیتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تمام مذہبی لٹریچر کو ٹھوک بجا کر پرکھ چکے ہیں، اور اس کے بعد اس نتیجہ پہ پہنچے ہیں کہ فقہ حنفی، دیوبندی، حاضری، ناظری حق پر ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ گھر کے بازو میں مسجد کے امام بھی حنفی دیوبندی حاضری ناظری ہیں۔ انسان کتنا ہی عالم کیوں نہ ہو بشری خطاؤں سے پاک نہیں ہو سکتا، چنانچہ بھول چوک ان سے بھی ہو جاتی ہے۔ اخلاق باختہ فلمیں اورحواس باختہ مجرےدیکھ لیتے ہیں مگر کسی کو فارورڈ نہیں کرتے کہ ان کی بدولت کوئی گناہ کا شکار نہ ہو جائے البتہ حیا باختہ لطیفوں میں دوستوں کو ضرور شریک کرتے ہیں، آخر ہنسنانا نیکی کا کام ہے۔

ٹویٹر پہ ان کی آمد اپنے سیاسی خیالات کے اظہار کیلئے ہوئی۔ ان کی سیاسی بصیرت کی کہانی بھی دلچسب ہے۔ پڑھائی میں یہ کچھ سست تھے، اساتذہ اور گھر والوں کی ڈانٹ ڈپٹ نے عزتِ نفس کو کچل دیا تھا۔ اس مایوسی کے عالم میں جماعت والوں نے انہیں جہادِ افغانستان میں بہادری کے جوہر دکھانے کا مشورہ دیا تاکہ چار فرلانگ کے قصبے میں ان کی شہرت ہو جائے۔ یہ نہایت جوش سے مجاہد بنے مگر ہوا یوں کہ لڑائی کے دوران نشانہ کے ساتھ ان کا پیشاب بھی خطا ہو گیا ۔ چنانچہ کمانڈر صاحب نے مشورہ دیا کہ منصورہ میں جماعت کی لائیبریری کا کام سنبھالیں۔ اس ناقدری پہ جماعت کو خیر باد کہا، کچھ عرصہ بھٹکنے کے بعد نواز شریف کی سیاسی بیعت کرلی اور یہ سلسلہ اب تک قائم ہے۔لیکن اپنے فقہ کے ساتھ وابستگی کو بہرحال سیاست پہ مقدم رکھتے ہیں۔ سیاسی و فقہی مخالفین کو زچ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے دلائل کا وزن ان کی گالیوں سے بس ذرا سا کم ہوتا ہے۔ بے مہار خواتین کو سیدھا راستہ دکھانے میں کبھی نہیں جھجکے۔ وقتا فوقتا انہیں یاد دہانی کراتے رہتے ہیں کہ قوم کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں پہ کونسی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے۔

کئی روایت پسند خواتین انباکس میں ان سے خاندانی امور پہ مشورے لیتی رہتی ہیں۔ یہ ان کو خلوصِ دل سے مشوروں سے نوازتے ہیں مگر ان کا دل ہمیشہ روشن خیال خواتین میں اٹکا رہتا ہے۔ جب یہ کسی خاتون سے کہیں کہ “میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں” تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ٹھرک پوری ہے مگر مناسب موقع نہیں مل رہا۔ البتہ کسی کو بہن کہہ دیں تو یقینی بات ہے کہ اس میں انٹرسٹڈ نہیں ہیں۔ اپنی آزاد منش طبیعت کے باعث انہوں نے نوکری نہیں کی۔ والد کے کاروبار کو سنبھالنا شروع کیا اور ایک دو سال میں ہی زمین بوس کرنے والے تھے کہ چھوٹے انجینئیر بھائی نے اپنی نوکری سے استعفی دیکر نہ صرف کاروبار بچایا بلکہ پہلے سے بہتر کیا۔ ان کی حیثیت اب اعزازی صدر کی ہے مگر اللہ ہاتھ پیر پلائے بغیر دے رہا ہے تو کیوں نہ یہ اصلاحِ قوم کی خاطر ٹویٹر پہ وقت صرف کریں۔

نوٹ: اس کردار کے ساتھ کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔ ادارہ کو ذمہ دار نہ سمجھا جائے۔

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s