انہوں نے متوسط طبقے کے ایک گھرانے میں پرورش پائی۔ بچپن میں ناظرہ قرآن محلے کی مسجد میں پڑھا، آخری پارے کی چند سورتیں بھی حفظ کیں۔ کہتے ہیں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ ذہانت، نیک سیرتی، فرمانبرداری کی بدولت قاری، استاد اور گھر والوں سے خوب داد سمیٹی۔ مزید داد سمیٹنے کے چکر میں فارسی، عربی میں بھی کچھ شدہ بدھ حاصل کی۔ صحیح بخاری کی کچھ احادیث اور تاریخِ اسلام کا مطالعہ اپنے شوق سے کیا۔ لڑکپن میں غالب، اقبال اور حالی کے بعد جون ایلیا، جوش ملیح آبادی اور اختر شیرانی سے متاثر ہوئے۔ پھر انگریزی ادب کے سستے ناولوں اور پندرہویں صدی کے انگریز فلاسفروں کے اردو تراجم سے استفادہ کیا۔ وہیں سے روش خیالی کے دروازے ان پہ وا ہوئے۔ لیکن تمام تر ذہانت اور مطالعہ کے باوجود محلے کی خوبصورت لڑکی کو متاثر نہ کر پائے۔ فکرِ معاش، خانہ آبادی، گریۂ طفلان نے اس کے بعد مزید مطالعے کا موقع نہ دیا۔ چالیس، پچاس کے پیٹے میں پہنچے تو سفید بالوں، بڑھتی توند اور مضمحل قوی نے احساس دلایا کہ وقت نکلا جا رہا ہے۔
فوتِ فرصتِ جوانی نے ان کی طبیعت میں وحشت پیدا کر دی۔ نوجوان لونڈے لونڈیوں کا اختلاط دیکھ کر ان میں جوانی کی رائیگانی کا رنج مزید گہرا ہو گیا۔ کچھ عرصہ ولایت میں بھی گزارا جہاں گوروں کے کچھ نہاں اور کچھ عریاں تعصب نے ان کو مزید رنجیدہ کر دیا۔ ان کی شدید خواہش ہے کہ پاکستانی یہودیوں کے ساتھ مل کر ہم واشنگٹن کے وسط میں مظاہرہ کریں تو گوریاں ان کی بلائیں لینے ٹکٹ لیکر کھڑی ہوں۔ عربی تلفظ اور ترکی ڈراموں سے سخت کوفت ہے۔ لسی کے کٹورے اور پان کی پیک میں انسانیت کی معراج دیکھتے ہیں۔ اپنے بچوں کو انگریزی کے علاوہ کسی دوسری زبان کی تعلیم دینا مناسب نہیں سمجھا، البتہ کسی پاکستانی کو عربی پڑھتا دیکھ لیں تو اپنے ذہن میں اس کا شجرہ نسب بنو امیہ سے ملا دیتے ہیں۔
اکثر سوچتے ہیں کہ کاش جوانی پھر سے لوٹ آئے اور مخلوط محافل میسر آئیں۔ ٹویٹر پہ اکثر آزاد خیالی کا پرچار اور قدامت پرستی کا رد کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی روش خیال خاتون کی شان میں گستاخی نظر آئے تو ڈھال بن کر سامنے آتے ہیں۔ چند ٹویٹس داغتے ہیں، اور پھر داد خواہی کی خاطر خاتون کے ڈی۔ایم کا رخ کرتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ڈھلتی عمر اور بڑھتی توند ہر مرتبہ آڑے آ جاتی ہے۔ خاتون بھی زیرِ بارِ احساں ہو کر ان کو چمکا رتی ہیں، “میرا شوہنا بھائی، میرا ذہین دوست” ۔ ان سے اپنے بچوں کی تربیت اور سہیلیوں کی طبیعت کے بارے مشورے لیتی ہیں۔ ان کی طبیعت ناساز ہو تو ٹی ایل پہ دعا بھی کرا دیتی ہیں۔ یا تھانے میں چھتر پڑیں تو ان کی آزادی کیلئے اپیل بھی کرتی ہیں۔ کبھی ان کو حسن و وجاہت کی کمی کا احساس ہو تو اپنے بچے یا کسی حسین رشتہ دار کی تصویر بھی ٹھوک دیتے ہیں، یا اپنی کوکنگ سکلز کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی کوئی نیکی سرزد ہو جائے تو تصویر لیکر اپلوڈ کرنا نہیں بھولتے۔ اس کا مقصد سراسر لوگوں کو ترغیب دینا ہوتا ہے ورنہ لائیکس بٹورنا انہیں سخت ناپسند ہے۔ ان کی ڈگریاں آفس کی بجائے بائیو میں آویزاں ہوتی ہیں۔
نوٹ: اگلا تھریڈ قدامت پرست چچا