کچھ لوگ ادب دوست ہوتے ہیں، لیکن سلی بھائی کو میں کہوں گا کہ لفظ دوست ہیں۔ الفاظ سے ایسا برتاؤ کرتے ہیں جیسے کوئی یاروں کا یار اپنے دوستوں سے کرتا ہے۔ لفظ کے معنی ہی نہیں اس کے مزاج کو بھی سمجھتے ہیں۔ الفاظ کو یوں برتتے ہیں جیسے کوئی روایتی خاتون جہیز میں آئے ہوئے سامان کو۔
کہتے ہیں کہ ترجمہ محبوبہ کی طرح ہوتا ہے، خوبصورت ہو تو اصل عبارت کے ساتھ وفا نہیں کرتا، اور اصل کے قریب ہوتو خوبصورتی باقی نہیں رہتی۔ عربی اشعار اور اقوال کے تراجم جو انہوں نے کئے مفہوم کا حق بھی ادا کرتے ہیں اور عبارت کی چاشنی بھی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ان کا کام منفرد ہے کہ سادہ اور عام فہم الفاظ کے ساتھ عبارت میں حسن پیدا کر لیتے ہیں۔
ذہین، حساس اور رومانوی شخص معلوم ہوتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ کیوپڈ کے تیر سے گھائل ہوئے ہیں۔ ، گاہے بگاہے کچھ عشقیہ ٹویٹس بھی کرتے ہیں مگر ان میں بوالہوسی یا عامیانہ پن نہیں ہوتا بلکہ خلوص اور صداقت جھلکتی ہے۔
سیاست میں بھی کما حقہ دلچسبی رکھتے ہیں مگر سیاسی رائے میں بھی ان شخصیت کی متانت جھلکتی ہے۔ سستی نعرہ بازی اور پروپیگنڈا سے دور رہتے ہیں۔ کسی گروہ یا گروپ وابستہ نظر نہیں آتے۔ دھیمے انداز میں منطقی اور سلجھی ہوئی بات کرتے ہیں۔
ان کی ٹویٹ سے پتا چلا کہ عطیہ کی ہوئی آنکھوں سے انہیں دوسری بار بینائی کی نعمت ملی، شاید اسی لئے انسانی حسن سے بھی بڑھ کر قدرتی مناظر کے شیدائی ہیں جو ان فلیٹ میں نظر آتے ہیں۔
سوشل میڈیا پہ جہاں منفیت، سستی جذباتیت، گروہ بندی کا دور دورہ ہے، وہاں ان جیسے لوگوں کا وجود ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔