ہمدرد خان سکول میں ہمارے ہم جماعت ، اور اب ہمارے کولیگ ہیں۔ انتہائی گورا چٹارنگ، بیضوی چہرہ ، کشادہ پیشانی اور ستواں ناک۔ مگر بات کرنے کو منہ کھولتے ہیں تو مخاطب سوچتا ہے کاش یہ خاموش رہتے اور ان کے دانتوں کا دیدار نہ ہوتا۔ سامنے کے دانت یوں ہیں کہ گویا شاہی قلعہ کی شکستہ دیوار، جس کی بعض اینٹیں سرمئی، بعض خاکستری ہیں جبکہ بعض پہ سفید روغن ابھی باقی ہے۔
فوجیوں کی ٹوپی ترچھی ہوتی ہے، ان کی چال ترچھی ہے۔ دایاں کندھا ہمیشہ پیچھے کو کھینچا رہتا ہے، اور دایاں بازو ساکن، جبکہ بائیں بازو کو ہر قدم کے ساتھ نصف قوس میں ہلاتے ہیں۔ دیکھنے والے کو اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کا رخ کس جانب ہے، آیا سیدھا آ رہے ہیں یا دائیں مڑنے والے ہیں۔ بعینہ یہی معاملہ ان کے دماغ کا ہے۔ سوچ کی رو کسی سمت کسی وقت بہہ نکلتی ہے۔
ڈیپارٹمنٹ کوئی شخص نیا آجائے، ان کی حالت یوں ہو جاتی ہے کہ گویا “انگ انگ پھڑکے مرا”
نوواردمریض دیکھنے جائے گا تو یہ ساتھ ہو لیں گے، خود مریض کا انٹرویو کریں گے پھر اسے پلان لکھوائیں گے اور اصرار کریں گے کہ جوں کا توں لکھا جائے۔ نووارد اگر خود مریض سے کچھ پوچھنے کو کوشش کرے گا تو فوراً اسے ٹوک دیں گے کہ جب انہوں نے علاج تجویز کر دیا ہے تو اس میں کسی مزید بہتری کی گنجائش نہیں۔ ضرورت پڑے تو جونئیر کو بازو سے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے کہ بس کم نے جو کہہ دیا کافی ہے۔
یہ اس کو یوں دیکھتے ہیں جیسے بھوکا شیر ریوڑ میں اپنے شکار کو تاکتا ہے۔ طریقہ واردات ان کا یہ ہے کہ نئے آنے والے کے سب سے بڑے ہمدرد بن کر سامنے آتے ہیں۔ کسی نرس نے کال کی، یہ فوراً دخل انداز ہوئے، یہ نیا سمجھ کر تمہیں تنگ کر رہی ہیں، میں ابھی سیدھا کرتا ہوں۔ پھر فون اٹھا کر نرس سے الجھنے لگے۔ ہسپتال کے تمام اہم لوگوں سے بہت بے تکلفی سے مخاطب ہوں گے، کہ نو وارد سمجھے گا شاید ان کے جگری ہیں۔ ڈیوٹی روسٹر کو دیکھ کر نئے آنے والے کو یقین دلائیں گے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، پھر روسٹر بنانے والے کو اونچی آواز میں صلواتیں سنائیں گےاور اس کی گو شمالی کا وعدہ کریں گے۔
چونکہ ذہین ہیں اس لئے مریض کے فوری مسئلے کو تو سمجھ جاتے ہیں مگر اپنی جلد بازی کی وجہ سے مریض کو ممکنہ پیچیدگیوں سے بچانے کیلئے جو اقدامات حفظ ما تقدم کے طور پہ کرنے ہوتے ہیں ان میں بسا اوقات کمی رہ جاتی ہے اور پھر بیچارہ نیا ڈاکٹر صلواتیں سنتا ہے۔ نووارد پہ مقصد اس التفات کہ یہ ہوتا ہے کہ نووارد ایک مرتبہ قابو آ جائے تو بس اس کو بغل میں لئے پھریں۔ کیونکہ انہیں بے انتہا شوق ہے کہ اپنی باتیں سنانے کو ہمہ وقت کوئی موجود ہو۔ بے تکان بولتے چلے جاتے ہیں۔ ایک دن ہم نے مزاحاً کہا بھابھی آپ کی باتوں سے جزبز نہیں ہوتیں کہنے لگے وہ تو رو پڑتی ہے۔
آج کل دو نئے پرندے آئے ہوئے ہیں، خدا ان کی حفاظت فرمائے۔