مجسٹریٹ نجم شاہ کالی واسکٹ اور کاٹن کے سفید سوٹ میں ملبوس صدر بازار کا دورہ کر رہا تھا۔ ایک سنتری چھتری تانے اس کے ساتھ جبکہ پیچھے پولیس کی ایک ٹولی چلی آ رہی تھی۔ بازار کے وسط میں چھوٹا بلڈوزر کھڑا تھا۔ دکانوں کے بڑھے ہوئےچھجے گرا دئیے گئے تھے اور ان کے ملبہ نے کہی جگہوں سے نالی بند کر دی تھی، جس کی وجہ سے بدبودار پانی سڑک پہ رستا چلا آ رہا تھا۔ کوئی چھابڑی والا دور دور تک نظر نہیں آ رہا تھا۔ اچانک بغلی گلی سے شور اٹھا۔ نجم شاہ نے دیکھا تو ایک بھاری بھرکم شخص ہانپتا ہوا ایک چھوٹے سے سفید کتے کے پیچھے بھاگا چلا آرہا تھا۔
“پکڑو اس کتی کے بچےکو
جانے نہ پائے
پکڑو ۔ پکڑو”
ایک لڑکا نے پتھر اٹھا کر کتے کو دے مارا جو اس کی پچھلی ٹانگ پہ لگا۔ کتے نے تین ٹانگوں پہ دوڑ جاری رکھنے کی کوشش کی۔ موٹا آدمی اس کے قریب پہنچا ہی تھا کہ پانی کی پھسلن سے گر پڑا مگر کتے کی ایک ٹانگ اس کے ہاتھ میں آ گئی۔ دکاندار جو اپنا مال سمیٹنے میں مصروف تھے تماشا دیکھنے کو جمع ہو گئے۔
“ایدھر تو کوئی مسئلہ اے سر جی”
سنتری جو نجم شاہ کے سر پہ چھتری تانے چل رہا تھا اپنے پنجابی لہجے میں بولا۔ نجم شاہ اپنی پولیس ٹولی سمیت بھیڑ کے نزدیک پہنچا تو کتا سیمنٹ اور پتھروں کے ڈھیر کے پہ کھڑا تھا اور اس کی ایک ٹانگ موٹے آدمی کے ہاتھ میں تھے، جبکہ اس کے دوسرے ہاتھ سے خون رس رہا تھا۔ پولیس ٹولی کی قیادت کرتا حوالدار رعب دار آواز میں بولا : “اوئے شور کیوں مچاندے او، دیکھتے نئیں مجسٹریٹ صاب دورہ کر رے ہیں۔”
موٹے شخص نے اپنا خون آلود ہاتھ سیلیوٹ کے انداز میں پیشانی تک لایا اور بولا: “حضور میں سنیارے کی دکان میں کاریگر ہوں، آج چائے کے کھوکھے پہ آیا تو اس کتے نے میری انگلی پہ کاٹ لیا۔ میرا باریکی والا کام ہے، میری تو ایک ہفتہ کی دیہاڑی ماری گئی!
ان انگریزی فلموں کی وجہ سے لوگوں کو آج کل اس نجس کو جانور پالنے کا کیوں شوق ہو گیا ہے جی!
حضور انصاف کریں اور میرا نقصان پورا کرائیں”
نجم شاہ نے کھنگار کے گلا صاف کیا اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا :
“حوالدار پتا کراؤ اوئے یہ کتا ہے کس کا؟
“ایک تو لوگ کتے پالتے ہیں اور پھر انہیں کھلا چھوڑ دیتے ہیں!
“اب چوروں کی حکومت نہیں ہے کہ کوئی قاعدہ قانون نہ ہو! “
“اس کے مالک کو پیش کرو صبح میری عدالت میں۔۔۔۔ اور ۔۔۔ یہ کتا تو باؤلا لگتا ہے۔ اس کو ابھی گولی مارنی پڑے گی۔۔۔۔کہیں اور لوگوں کو نہ کاٹے”
ہاتھ میں چھوٹی سی درانتی اور کٹر پکڑے ایک مالی بولا: “سر جی یہ کرنل ادیب کا کتا ہے۔ میں ان کے لان کی صفائی کرنے گیا تھا ، مالی ہوں میں نے کل ان کے گھر دیکھا تھا۔ پشلی گلی میں ای ہے ان کا گھر۔ ”
نجم شاہ کادا یاں ہاتھ اپنی مونچھ سے واپس واسکٹ کی جیب میں جا پہنچا۔ اس نے کاریگر کو مخاطب کیا “ اتنے لحیم شحیم تم بندے ہو، گناواں دی پنڈ ! ہیں! اس چھوٹے سے کتے نے تمہیں کاٹ کیسے لیا؟
یہ تو چھلانگ بھی لگائے تو تمہارے گوڈے تک نہ پہنچے”
“سر جی بڑے جھوٹے لوگ ہیں اس بزار کے۔ اس کی انگلی کام میں زخمی ہو گئی ہو گی۔ اس نے سوچا کسی شریف آ دمی سے معاوضہ وصول کروں۔ بڑی چنگی طراں جانتا ہوں ان کو “ حوالدار نے لقمہ دیا۔
کاریگر نے احتجاجاً دہائی دی “ سر جی میں کیوں جھوٹ بولوں گا۔ میں غریب بندہ ہوں، دیہاڑی کے بغیر تو کھانے کو نئیں ملے گا مجھے۔
قنون سب کیلئے برابر ہونا چاہئیے۔ میرا سالا بھی فوج میں صوبیدار ہے جی”
نجم شاہ کو اس کی بات اچھی نہ لگی “ تیرے سالے کی ماں کی آنکھ! مجھے قنون بتائے گا تو؟ مجسٹریٹ درجہ اوّل کو”
اتنے میں پولیس ٹولی میں سے ایک سنتری آگے آیا اور مجسٹریٹ کے پاس آ کر کہنے لگا “ سر میں کرنل صاحب کے گھر میں ڈیوٹی دیتا رہا ہوں۔ بہت متقی آدمی ہیں، گھر میں کبھی کتا نہیں رکھا۔ یہ ان کا ہو ہی نہیں سکتا۔ “
“تمہیں یقین ہے؟” نجم شاہ نے سنتری سے پوچھا؟
“جی سر”
“ٹھیک کہتے ہو بھلا کرنل صاحب جیسے با شرع آدمی گھر میں کتا رکھیں گے!
انگریز کنویں میں چھلانگ لگائے گا تو یہ براؤن صاحبان بھی کنویں میں ڈوب مریں گے۔
کاریگر فکر نہ کرو۔ تمہیں انصاف ملے گا۔ “
“سر جی وہ کرنل صاحب کا ڈرائیور آ رہا ہے، اس سے پوچھ لیتے ہیں۔ “
“امام بخش ایدھر آؤ ، یہ کتا کرنل صاحب کا ہے؟ ” حوالدار گرجا
“نہیں صاب، یہ تو ان کے بھائی کا ہے۔ کل ہی وہ اسلام آباد سے آئے ہیں صاحب سے ملنے۔
یہ کتا کہیں صبح نکل گیا، میں اسے ہی ڈھونڈ رہا تھا۔ “
“اووہ ! یہ جسٹس حبیب صاحب کا کتا ہے؟ “ نجم شاہ نے سوال کیا۔
“جی صاحب”
“اوہو ہا ہا ہا ہا
کتنا پیارا ہے”
“ہا ہا ہا ہا”
“اچھا جسٹس صاحب کو بولنا نجم شاہ نے سلام بھیجا ہے۔
میں کل آؤں گا ملنے”
“لے جاؤ ، پپی کو اور گیٹ بند رکھا کرو ۔ ہہہہا”
نجم شاہ پھر کاریگر کی طرف مڑا “اوئے اس دفعہ تم ہےان چھوڑ رہا ہوں، اگلی دفعہ بے رحمئ حیوانات کی دفعہ لگا کر اندر کر دوں گا۔”
“نکل جا جس گلی سے آیا تھا”
This is urdu translation of Anton Chekhov’s short story; The Chameleon.