فہمیدہ بے حد رنجیدہ خاطر تھی۔ اس کے خاوند نے چند دن پہلے ایک نوجوان بیوہ سے شادی کر لی تھی۔ گھر کے کام کاج، نماز، تلاوت اور اذکار کے باوجود بے چینی دور نہ ہو پا رہی تھی۔ ذہنی سکون کیلئے اس نے اپنی مذہبی اقدار اور پاکیزہ خیالات سے مدد چاہی۔ فہمیدہ خلوصِ دل سے یقین رکھتی تھی کہ شریعت کے تمام احکام انسان کی فلاح کیلئے ہیں اور پھر بیوہ کے ساتھ نکاح اور چھوٹے سے یتیم بچے کی کفالت تو مستحب ہے۔ مگر سب لا حاصل۔ وہ بار بار اسی نتیجے پہ پہنچتی رہی جو اس کا بد مذہب بھائی کہتا تھا کہ مقصود ایک ہوس پرست شخص ہے اور اس شادی کی آڑ میں اپنی شہوت کی تکمیل چاہتا ہے۔ اور یہ خیال اس کا دل مسل دیتا۔
چار دن سے وہ میکہ میں تھی اور اس کا بھائی عامر آتے جاتے مولویوں کو گالیاں دیتا اور کبھی مقصود پہ طعنہ بازی کرتا۔ فہمیدہ مزید غمزدہ ہو جاتی۔ بھاوج اور سہیلیوں کی نظریں سوال کرتی نظر آتیں
“نسرین نے تمہاری دوست بن کر مقصود پہ ڈورے ڈالے، تم یوں ہی اس بات کو جانے دو گی؟”
مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ اسے کیا کرنا چاہئیے۔ دالان میں بیٹھی تھی کہ دروازہ کی گھنٹی بجی، اس کے بھائی نے دروازہ کھولا۔ فہمیدہ کا دیور ہاتھ میں کچھ پکڑے کھڑا تھا، اس نے نجانے کیا کہا کہ عامر چیخ کر بولا “اس حرامزادے سے کہہ دو ہم مرے نہیں ہیں کہ اپنی بہن کی کفالت نہ کر سکیں اور دوبارہ ادھر کا رخ نہ کرنا” ۔ فہمیدہ کو دیور کی بے عزتی اور دُکھی کر گئی، وہ بھلا مانس شخص تھا جو ہر ایک سے اچھا معاملہ کی کوشش کرتا۔ وہ بے خیالی میں اٹھ کر چھت پہ آ گئی اور اپنی تسبیح گھمانے لگی۔ نسرین کے شوہر کی وفات کے بعد فہمیدہ نے باقاعدگی سے اس کی مالی مدد کی اور پھر وہ تو فہمیدہ سے تجوید سیکھنے اس کے گھر آتی تھی، پھر یہ کب ہوا اور کیسے ہوا کہ نوبت نسرین اور مقصود کی شادی تک آ پہنچی؟ اس نے سر اٹھا کر آسمان کی جانب جواب طلب نظروں سے دیکھا مگر کسی غیبی اشارےکی بجائے چند مردہ بادلوں کے سواکچھ دکھائی نہ دیا۔ الٹا دھوپ سے اس کی آنکھیں چندھیانے لگیں اور اسے اپنے گالوں پہ آنسووں کی نمی محسوس ہوئی۔ سینے کی گھٹن میں مزید اضافہ ہو گیا، اور فہمیدہ سوچنے لگی کہ اس کی روح کب تک اس شکنجہ میں پھنسے رہے گی۔ وہ نہ تو اس حقیقت سے انکار کر سکتی تھیں کہ نسرین اور مقصود نے خلافِ شرع کچھ نہیں کیا اور نہ اس امر کو قبول کر سکتی تھیں کہ جس عورت کی وہ نیک نیتی سے مدد کر رہی تھی، اس نے نہ صرف اس کا شوہر ہتھیایا بلکہ دنیا کی نظروں میں ذلیل بھی کروایا۔
اسے یاد آیا کہ شادی کے چوتھے دن وہ اور مقصود مونال میں کھانا کھانے گئے تھے، وہ سوچنے لگی کہ کیا مقصود نسرین کو بھی ایسے ہی پیار کرتا ہوگا جیسے اسے کرتا تھا۔ اس نے چشمِ تصور میں دیکھا کہ نسرین مقصود کے لطیفوں پہ کھلکھلا رہی ہے، اور اس کے بازو کی مچھلیوں کو سہلا رہی ہے، جبکہ وہ یہاں گرمی میں چھت پہ پسینے سے شرابور بیٹھی ہے۔
پھر اسے خیال گزرا کہ کیا ان کی شادی سے پہلے بھی ایسا ہوا ہو گا؟
کیا معلوم جب وہ میکہ آتی تھی تو نسرین اس کے گھر کا چکر لگاتی ہو؟
جب مقصود دو دن کیلئے سکھر گیا تھا، شاید وہ نسرین کے گھر میں ہو؟
یہ سوچ کر فہمیدہ کی مٹھیاں اتنی زور سے بھنچیں کہ ہاتھ میں پکڑی تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ گیا اور دانے گر کر فرش پہ بکھر گئے۔ وہ خالی ذہن سے دانوں کو تکنے لگی۔ آج اسے ان دانوں میں کوئی تقدس نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے باقی ماندہ تسبیح بھی فرش پہ پھینک دی اور بےدھیانی سے فون نکال کر دیکھنے لگی۔ وٹس ایپ کھولا، سہیلیوں کے میسج پڑھنے کی ہمت نہ ہوئی اور انہیں یوں ہی چھوڑ کر نیچے سکرول کرنے لگی۔ اس کی نظر ایک نمبر پہ پڑی جسے سیو نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے پھوپھی زاد سانول کا نمبر ! جس کا رشتہ اس نے ٹھکرا دیا تھا۔ نظر جمائے وہ اس نمبر کو غور سے دیکھتی رہی اور اچانک گویا تمام گتھیاں سلجھ گئیں۔ دل کی بے چینی دور دور ہو گئی، اور روح کو قرار آ گیا۔ وہ جان گئی کہ اسے کیا کرنا ہے۔ فہمیدہ نے مقصود کا نمبر ملایا اور کہا کہ جمعے کی شام وہ تیار رہیگی اسے لینے آجائے۔ اس کا گھر اس کا سسرال ہے، وہ وہیں رہے گی، نسرین کے ساتھ!
اس نے مقصود سے فرمائش کی کہ وہ اسے بائیک پہ لینے آئے جیسے دس سال پہلے، شادی کے شروع کے دنوں میں میکے سے لینے آتا تھا۔ جمعے کے دن عامر نے لاکھ لعن طعن کی مگر فہمیدہ مقصود کے ساتھ جانے پہ بضد رہی۔ آخر تھک ہار کر عامر بھی خاموش ہو گیا کہ شاید قدرت کو یہی منظور ہے۔ آدھ گھنٹے بعد عامر کو فہمیدہ کی کال آئی وہ چیخ رہی تھی کہ ایک شخص نے موبائل چھیننے کی کوشش کی اور مقصود کو گولی لگی ہے۔ عامر کے ہاتھ کانپنے لگے، اس نے گاڑی نکالی اور فہمیدہ کی بتائی ہوئی جگہ پہ پہنچ گیا۔ چند تماشائی اور پولیس کی موبائل وہاں کھڑی تھی ، فہمیدہ زمین پہ بیٹھی رو رہی تھی اور مقصود کی لاش کے پاس کھڑا تھانیدار سوچ رہا تھا کہ موبائل چھیننے والے نے مزاحمت پر پوری چھ کی چھ گولیاں مقصود کے سینے میں کیوں اتار دیں؟