ایک صاحب نے فرمائش کی کہ ان کے مشہور و معروف ڈاکٹر دوست اپنے معالج سے مطمئن نہیں، اور دوسری رائے لینا چاہتے ہیں، ہم نے آپ کا نام تجویز کیا ہے، آپ انہیں دیکھ لیں۔ ہم نے ٹال مٹول سے کام لیا کیونکہ ہمارا تجربہ ہے کہ ایسے “اہم” حضرات کو اکثر علاج سے زیادہ آیا گیری کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ ان سے غیر جذباتی ہو کر حقیقت بیان کریں تو مطمئن نہ ہوں گے، اور اگر آپ کی بے بی سٹنگ سے راضی ہو جائیں تو ناک پہ خارش بھی ہوتو جھٹ آپ کو کہیں گے، آج کھجلی ہو رہی ہے، کہیں کچھ مسئلہ تو نہیں۔چند دن بعد اس دوست کاپھر سے فون آ گیا، اس دوران ہمیں بھی ڈاکٹر صاحب کے محکمے میں ایک کام آڑے آ چکا تھا، سو ہم نے کہا ٹھیک ہے جی، بھیج دیجئے۔ کہانی وہی پرانی تھی، ڈاکٹر صاحب عرصہ سے علیل، بیماری خاصی بڑھ چکی ہے مگر علاج میں سستی اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ ذہنی طور پہ مرض کو تسلیم نہیں کر پا رہے۔ معالج نے ان کیلئے بہت مناسب علاج تجویز کیا ہے مگر نہ دوا کھاتے ہیں نہ معالج کے پاس جاتے ہیں۔ کیس اظہر من الشمس تھا، مگر ان کو سامنے بٹھا کر ہم نے کچھ دیر ان کے ٹیسٹوں میں غرق ہو جانے کی اداکاری کی، پھر ایک دو لمبی سی ٹھنڈی آہیں بھریں، دراز سے کاغذ اور پینسل نکالا۔ اس پہ دو تین نتائج لکھے اور انہیں ایک عام شخص کی طور پہ لیتے ہوئےسمجھایا کہ کون سی علامت کس وجہ سے ہے۔ پھر کہا کہ کونسی دوا مرض کی علامات کو کس طرح کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ اس کے بعد علاج کے مزید مراحل جن سے وہ جان چھڑانا چاہتے ہیں، اس میں بس چند ماہ کا وقت رہ گیا ہے۔ خیر ۳۰-۴۰ منٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب وہی علاج استعمال کرنے پر بخوشی تیار تھے جو ان کے پہلے معالج نے تجویز کیا تھا۔وہ گئے اور ہم سوچ میں پڑ گئے کہ زندگی کے بارے میں ہماری عمومی رویہ ایسا ہی ہے۔
حقیقت نہ پیچیدہ ہے نہ مبہم۔ ہاں تکلیف دہ اور پریشان کن ضرور ہے۔ ہم کسی ایسے سادھو یا مرشد کی تلاش میں رہتے ہیں جو اس کڑوی گولی میں تھوڑی سی مٹھاس بھر دے کہ نگلنے میں آسانی ہو۔
ہماری بھی تمام عمر آئینے بدلتے گزری ہے، کہ شاید کوئی ایسا شیشہ ہاتھ آ جائے جس میں اپنا عکس اچھا دکھائی دے۔