کالج کینٹین کی دوسری منزل پہ ایک چھوٹا سا ائیرکنڈیشنڈ ریڈنگ روم ہوا کرتا تھا، جس کی چند کرسیوں کیلئے اکثر انتظار کرنا پڑتا اور اس انتظار کو بھی پڑھائی کے وقت میں ہی شمار کیا جاتا۔ چودھری صاحب ایک دن اے سی کے عین سامنے براجمان تھے کہ ایک نیم بدمعاش وارد ہوا اور چودھری صاحب سے اٹھنے کا تقاضا کیا۔ چودھری صاحب نے کتاب سے نظریں اٹھائے بغیر انکار کر دیا۔ نیم بدمعاش نے ہاتھ مار کے کتاب زمین پہ گرا دی، اور جیب سے ریوالورنکال کر اس کا رخ چودھری صاحب کی طرف کیا اور بولا “اٹھ !”
چودھری صاحب نے کچھ دیر نیم بدمعاش کا اچھی طرح سے جائزہ لیا، ریوالور کو دیکھا، پھر آہستہ سے اٹھے، زمین سے کتاب اٹھائی، اور سیدھے ہوتے ہوئے دائیں ہاتھ کا گھسن نیم بدمعاش کی ٹھوڑی پر جڑ دیا۔ اس کی ٹھوڑی تقریباً ۶۰-۷۰ ڈگری کلاک وائز گھومی اور وہ پتوں کے گھر کر طرح زمین پر جا پڑا۔ چودھری صاحب نے ریوالر مالِ غنیمت کے طور پہ اٹھا لیا اور خاموشی سے ہاسٹل چلے گئے۔ گو کہ گھسن دید گواہوں کے بیان ہم تک پہنچ چکے تھے مگر پھر بھی شام کو ہم نے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہوا۔ کہنے لگے
“ایویں بد تمیزی کر ریا سی”
ستمبر یا اکتوبر کی رات تھی، نہ بہت گرمی اور نہ سردی۔ ہم سو رہے تھے کہ گرمی کے باعث آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو ہمارے سیالکوٹی بٹ دوست اور روم میٹ، بالکونی کے پاس کھڑے سگریٹ پی رہے تھے اور چودھری صاحب موم بتی کی روشنی میں جاسوسی ڈائجسٹ کی ورق گردانی کر رہے تھے۔ بجلی کا پینل بالکونی کے پاس تھا، ہم نے غنودگی کے عالم میں کہا:
“بٹ ! پکھا تے چلا دے، گرمی لگن ڈئی اے”
چودھری صاحب فورا بولے:
“او پکھا نہ چلائیں، موم بتی بجھ جائے گی “
“چودھری ٹیوب لائٹ بال لے” ہم نے آنکھیں بند کئے ہوئے کہا۔
“لائٹ ای کوئی نئیں” چودھری صاحب بولے۔
بٹ کے فلک شگاف قہقہے نے ہمیں احساس دلایا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔
چودھری صاحب، ٹیوب لائٹ , شادی اور دوسری شادی
ایک دن میں اور بٹ چودھری صاحب سے پوچھنے لگے، کہ کس لڑکی کو دیکھ کر ان کے دل میں کچھ کچھ ہوتا ہے؟ چودھری صاحب نے جُل دینے کی کوشش کی مگر ہم اڑے رہے، آخر انہوں نے کہہ ہی دیا کہ انہیں مہوش اچھی لگتی ہے۔
“کونسی والی مہوش؟ رول نمبر ۱۲۱؟” میں نے پوچھا ؟
“نہیں ، رولنمبر ۱۲۵”
“۱۲۵؟ مہوش؟ وہ کون ہے” میں نے پوچھا ۔
بٹ بولا “وہی جس کی قلمیں چودھری صاحب سے زیادہ گھنی ہیں، اور جو ٹیوب لائٹ کی طرح بار بار آنکھیں جھپکاتی ہے۔”
ہم چند لمحے خاموش رہے، پھر ہم نے کہا “اچھی ہے”
“ٹیوب لائٹ بھی آپ پہ فدا ہے چودھری صاب؟”بٹ نے پوچھا
“پتا نہیں”
یہ سن کر بٹ نے اپنا لمبا سا مخصوص قہقہ لگایا اور کہا “ چودھری صاب یکطرفہ عشق ای کرنا سی تے کم از کم کڑی سونڑی لب لینی سی “
“چلو چنگا اے کمپیٹیشن گھٹ ہووے گا” “ہہا ہاہاہاہا”
چودھری صاحب بولے ، “ بٹ صاحب تسی بد تمیزی کر رہے او”
بدتمیزی کا لفظ سن کر ہم دونوں ذرا ہشیار ہو گئے۔ بٹ بولا
“چودھری صاحب دوست ہون دے ناطے تواڈے نال بد تمیزی کرنا ساڈا حق اے تے اگر ٹیوب لائٹ دی شان وچ گستاخی ہوئی اے تے معذرت قبول کرو”
مہوش اور چودھری صاحب کا ناطہ تو کیا بنتا الٹا ہم نے سنا کہ وہ نیم بدمعاش کی زوجہ ہیں۔ چودھری صاحب بھی البتہ شادی کے معاملے میں کچھ پیچیدگیوں کا شکار رہے۔
فائنل ائیر میں چودھری صاحب کی غائبانہ منگنی ہوئی۔ لڑکی امریکہ میں مقیم تھی اور سسرال والوں نے شرط عائد کی کہ نکاح سے پہلے لڑکا یو-ایس۔ایم-ایل۔ای کرے گا۔ چودھری صاحب جُٹ گئے۔ دوستوں اور دشمنوں کی توقعات کے برخلاف خاصا اچھا سکور لیا اور پیا کے ساتھ امریکہ سدھار گئے۔ چاہت انہیں سرجری کی تھی مگر ریزیڈینسی سائیکیاٹری میں ملی جو ان کے مزاج سے کسی صورت میل نہیں کھاتی تھی۔ اس پر طرہ کہ ناک میں بولنا اور اس انداز سے کہ مخاطب کو سمجھنا مشکل ہوتا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، مریضوں اور چودھری صاحب دونوں کا پیمانہ لبریز ہونے لگا۔ ایک دن ایک بڈھے انگریز کو انہوں نے کوئی مشورہ دیا، اس نے مشورہ پر عدم اطمینان کا اظہار کچھ ان لفظوں میں کیا:
“وٹ دا فک ڈو یو نَو
گو بیک ٹو یور فکنگ کنٹری
سم بوڈی گیٹ می آ رئیل ڈوکٹر”
چودھری صاحب نے استعفی لکھا اور گھر آ گئے، اور ارادہ ظاہر کیا واپس پاکستان جائیں گے۔ بیگم نے صاف انکار کردیا۔ اس دوران ایک بیٹے کے والد بھی بن چکے تھے۔ چودھری صاحب کہا کہ آپ جائیں یا نہ جائیں میں جا رہا ہوں۔ بیگم نے کہا وہ تو کسی صورت نہیں جائیں گی اور بیٹا بھی ان کے پاس رہے گا۔ دوستوں نے سمجھایا کہ کسی دوسری سٹیٹ میں مختلف شعبہ میں قسمت آزمائی کر لیں مگر ان کا دل اٹھ چکا تھا، واپس آگئے اور پھر نئے سرے سے سرجری میں ٹریننگ شروع کر دی۔ اس دوران صلح کو کوششیں بیکار ہی رہیں اور علیحدگی کی قانونی کاروائی کا آغاز ہو گیا۔ چند سال بعد چودھری صاحب نے اپنی بھی ایک کولیگ سے شادی کرلی۔ اس دوسری شادی کو دو سال ہوئے ہوں گے کہ پہلی زوجہ بھی واپس آگئیں۔ یوں چودھری صاحب بیک وقت دو ٹیموں کے کپتان قرار پائے۔ گو شادی بٹ کی بھی نہ چل پائی مگر وہ کپتانی سے استعفی دے کر کلب کرکٹ کھیلنے لگے۔
خیر وہ قصہ پھر سہی۔