نئی کلاس کے ابتدائی چند دنوں کی گروہ بندیاں ظاہر کرتی ہیں کہ طبقاتی تقسیم کس قدرگہرائی سے انسانی فطرت میں رچی بسی ہے۔ قریبا دو سو لوگوں کی کلاس جو ایک دوسرے کیلئے اجنبی ہیں مگر چند دنوں میں ہی ہر نئی آنے والی کلاس ایک ہی انداز میں مخصوص گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ایک جانب خوبرو اور امیر اقلیت اور دوسری جانب متوسط طبقے کے اوسط شکل و صورت والوں کی اکثریت۔ درمیان میں غریب گھرانوں کے خوبصورت اور متمول گھرانوں کے ایسے طلبا جو شکل کے معاملے میں خوش قسمت نہ ہوئے، ریلو کٹوں کی مانند ادھر سے ادھر لڑھکتے رہتے ہیں۔ اوسط اکثریت پھر اپنی زبان، شہر اور ذہنی اپج کے مطابق مزید چھوٹے گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ہم بھی اوسط اکثریت میں شامل تھے اور گرائیں ہونے کی ناطے چودھری صاحب ہمارے حصے میں آئے۔ اور یوں ایک ایسی دلچسب شخصیت سے رفاقت کا آغاز ہوا، جن کے کہے ہوئے فقرے اب ہم دوستوں میں ضرب المثل کے طور پہ استعمال ہوتے ہیں اور کوئی محفل ان کے ذکر کے بنا نامکمل ہوتی ہے۔
چودھری صاحب کا قد تقریباً چھ فٹ ہے مگر دیکھنے میں چھ فٹ سے خاصے کم دکھتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کندھے “لٹکائے “ہوئے، جھک کر چلتے ہیں اور دوسرا یہ کہ پتلون دھڑ کی آخری سرحد پہ باندھتے ہیں؛ یوں ان کی ٹانگیں دھڑ کے مقابلے میں نسبتا چھوٹی لگتی ہیں۔ چودھری صاحب کی طرح ان کے بال بھی انوکھے ہیں۔ چھوٹے اور مضبوط، جن کی سمت کا اندازہ نہیں ہوتا اور نہ آپ یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ ان کی تراش خراش ہوئی یا نہیں۔ نائی کے پاس جانے سے پہلے اور بعد ان میں بال برابر بھی فرق نظر نہیں آتا۔ پیشانی اونچی مگر کنپٹی کے بال قبضہ مافیا کی طرح خاصے رقبے پہ تجاوز کرتے نظر آتے ہیں۔ بھنویں گھنی اور آپس میں شیر و شکر۔ بھنووں کے اوپر کی ہڈیاں ذرا آگے کو بڑھی ہوئی اور نمایاں۔ آنکھیں تیز۔ بڑا ناک، چوڑے اور مضبوط جبڑے، دہانہ چھوٹا جسے سکوڑ کر وہ بندۂ مزدور کی معیشت کی مانند مزید تنگ کر لیتے ہیں۔ چوڑے چکلے شانے، پیٹ ہلکا سا بڑھا ہوا۔ مستطیل ٹھوڑی اور گہرا رنگ۔
رعب دار جثہ کے بر عکس چودھری صاحب کی آواز باریک ہے مگر بات پورے دھڑلے اور لگی لپٹی رکھے بغیر کرتے ہیں اور ان سے وابستہ زیادہ تر یادیں اسی خوبی کی بدولت ہیں۔ اناٹومی کی پہلی یا دوسری کلاس تھی، ہماری پروفیسر جوادھیڑ عمر کو پہنچ چکی تھیں، کلاس میں آئیں۔ اس وقت وہ ساڑھی میں ملبوس تھیں اور پیٹ کا تھوڑا سا حصہ نظر آتاتھا۔ چودھری صاحب نے ایک نظر ان کو دیکھا، پھر ناک سکوڑی، سر کو دائیں جانب گھما کر استفہامیہ سی نگاہ ہم پر ڈالی۔ ہم کچھ نہ سمجھے اور جوابی سوالیہ نظر سے ان کو دیکھا۔
وہ بولے: “اے کی بے شرمی اے”۔ اور منہ کو دیوار کی جانب کرلیا۔
ہم نے پوچھا، “کیا ہوا چودھری صاحب؟ “
کہنے لگے، “میڈم دا ٹڈ نظر آ ریا۔”
ہم نے اس “نظر”یاتی بحث میں پڑنا مناسب نہ سمجھا مگر اگلی صف میں بیٹھی ہوئی ایک لڑکی نے سر گھما کر خون آشام نظروں سے چودھری صاحب کو گھورا۔ کلاس کے بعد ہم ڈسیکشن ہال پہنچے، جہاں ہمیں ایک عدد مردہ کا دایاں بازو حصول علم کی خاطر الاٹ کیا گیا تھا۔ لڑکیوں کے ایک گروہ کو بایاں بازو دیا گیا اور اتفاقاً گھورنے والی لڑکی بھی اسی گروپ میں تھی۔ وہ وقفہ وقفہ سے چودھری صاحب کو دانت کچکچا کر گھورتی اور ساتھ والی کے کان میں بھی کچھ کہتی۔ ڈسیکشن میں ہمیں تین گھنٹے گزارنے ہوتے تھے، اس لڑکی سے آخر رہا نہ گیا اور چودھری کو مخاطب کر کے بولی:
What you said about Madam was shameful …and …..and disgusting!
ایک دم خاموشی چھا گئی اور سب چودھری صاحب کی جانب دیکھنے لگے۔ چودھری صاحب کچھ دیر انگریزی کے جملہ پہ غور کرتے رہے پھر اسی طرح نظریں جھکائے بولے:
“آپ کیلئے digesting ہوگا،
ہمارے لئے نہیں ہے۔”
اس پر ایک بے ساختہ قہقہہ بلند ہوا، اور غصیلی لڑکی بھی زیرِ لب مسکرا دی۔ اس دن ہم لوگ آپس میں disgusting کی جگہ ہمیشہ digesting ہی استعمال کرتے آئے ہیں۔ جیسے یار بڑا ای digesting بندہ اے
چند ماہ مزید گزرے، اور رفتہ رفتہ لوگ ایک دوسرے سے مزید آشنا ہونے لگے۔ ایسے میں کلاس ریپرزینٹیٹو (CR)کے انتخاب کا مرحلہ آیا۔ لڑکوں اور لڑکیوں میں سے چند امیدوار ووٹوں کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔ ایک دن ہم ڈسیکش ہال میں بیٹھے اونگھ رہے تھے، چودھری صاحب آئے اور ہمارے پاس سٹول پہ بیٹھ گئے۔ کچھ دیر سر جھکائے خاموش بیٹھے رہے، پھر بڑے گھمبیر آواز میں کہنے لگے :
“سرمد صاب ! ایس کالَج نوں بنڑے کنے کو سال ہو گئے ہوں گے”
“کوئی ڈیڑھ سو سال، اے خیال کیوں آیا چودھری صاب”
چودھری صاب مزید گھمبیر لہجے میں بولے
“ہمیشہ منڈے کڑیاں دے پچھے پھرے نیں، آج کالج دی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ وچ پہلی واری ایک منڈا اگے تے اک کڑی اودے پِچھے پھری اے “
ہم نے کہا فورا سے پہلے ہمیں اس تاریخی واقعہ سے آگاہ کیا جائے۔
تو کھلا یہ کہ غصیلی لڑکی نے بھی سی آر بننے کا فیصلہ کیا، اور اپنی کمپین کے دوران چودھری صاحب کو اناٹومی اور فارماکالوجی ہال کے درمیان بیٹھا پایا تو ان سے جا کر دریافت کیا کہ وہ کسے ووٹ دے رہے ہیں۔ چودھری صاحب جواب دینے کی بجائے خاموشی سے اٹھے اور اناٹومی ہال کی جانب چل دئیے۔ غصیلی لڑکی کو اس حرکت پہ مزید غصہ آیا اور وہ پکاری
“Hey, I am talking to you!”
مگر چودھری صاب سنی ان سنی کرتے ہوئے چلتے رہے۔ اب چودھری صاحب آگے اور غصیلی لڑکی پھنکارتی ہوئی پیچھے چلی آ رہی ہے۔ مگر چودھری صاحب چلتے رہے ، اناٹومی ہال میں جا پہنچے اور ہمیں یہ تاریخی قصہ سنانے لگے۔ اتنے میں غصیلی لڑکی بھی اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ ہال میں داخل ہوئی اور چودھری کے قریب سے گزرتے ہوئے بولی
Crazy
لیکن چودھری صاحب نے اس کو بھی تمغۂ حیا جانا۔