خدا کی قسم پاکستان اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک کہ……

یہ قصہ ہے اس واحد یومِ آزادی کا جو ہم نے ہاسٹل میں منائی۔

کالج میں کلاس ہم اسی باقاعدگی سے اٹینڈ کرتے تھے کہ جس باقاعدگی سے وزیراعظم اسمبلی میں حاضر ہوتے ہیں اور اس کا ہمیں کوئی افسوس بھی نہیں۔ زیادہ تر پروفیسر حضرات پرانی ٹیکسٹ بکس خبرنامہ کے انداز میں پڑھ دیتے اور یا وہ باتیں کہتے جو ان کی بیوی یا شوہر سننے کے روادار نہ ہوتے۔ اور ہاسٹل بھی کیا تھے، علم کی ساتھ ساتھ چرس، افیون، اسلحہ بھی بخوبی دستیاب۔ ایسے میں ایک بہت روایتی انداز کے پروفیسر صاحب کو ہاسٹل کا وارڈن تعینات کیا گیا۔

انہوں نے پہلی فرصت میں ایک تو تمام پھنے خانوں کو کان سے پکڑ کر کے نکال باہر کیا۔ اس کے بعد نظم و نسق پہ توجہ دی۔ اب ایک دن ہم رات کی طویل گفتگو کے بعد، سو رہے تھے کہ دروازے پہ دستک ہوئی، ہم نے نظر انداز کی، کہ فورا اس سے زیادہ شدت سے دستک دی گئی؟ ہم نے جواباً پنجابی کی ایک دو مغلظات عرض کیں۔ جس کے بعد دروازہ اتنی زور سے بجایا گیا کہ ہمیں لگا ٹوٹ جائے گا۔ غصہ کے مارے ہم اٹھے اور دروازہ کھولا تو آگے پروفیسر صاحب کھڑے تھے۔ ان کے پیچھے ہاسٹل کے کلرک جو زیرِ لب اور بالائے لب بھی مسکرا رہے تھے۔اور ان کے پیچھے کچھ اور نیم خوابیدہ طالبعلم۔ ہمیں حکم دیا گیا کہ اس جلوس میں شریک ہو جائیں۔ اسی طرح چند اور سوئے ہوں لڑکوں کو پکڑا گیا، فلور کے آخر میں مظفر آباد کے ایک جوان کا کمرہ تھا، اس پہ جو زور دار دستک دی گئی، دروازہ کھلا تو موصوف صرف شلوار میں ملبوس تھے جس کی نمی ابھی خشک نہ ہوئی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر سب کا قہقہہ بلند ہوا، اور پروفیسر نے پہلے اپنی ناک سکوڑی، اور پہلی دفعہ ہلکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پہ آئی اور اس کے ساتھ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آج کیلئے اتنا چھاپہ کافی ہے۔ پھر ہم سب کو اکٹھا کرکے اقبال کے شعروں کی روشنی میں ایک لیکچر دیا گیا۔

یومِ آزادی آیا تو پروفیسر صاحب نے ہاسٹل کے وسط پرچم کشائی کی تقریب منعقد کرائی۔ تلاوت کے بعد ہماری مسجد کے امام کو خطاب کی دعوت دی گئی، جنہوں نے ایسے محتاط الفاظ میں قائدِاعظم کی تعریف کی، کہ دیوبند بھی آڑے نہ آئے اور حب الوطنی کے چند چھینٹے بھی پڑ جائیں۔ اس کے بعد حیدرآباد کے ہمارے ایک دوست صدیقی صاحب آئے جن کا جوشِ خطابت، مسجد کے خطیب سے چار چند تھا، ڈائس پہ آئے۔ انہوں نے اپنی مٹھی بلند کی، پھر اس میں سے شہادت کی انگلی برآمد کی جس کا رخ آسمان کی جانب تھا اور زور سے چیخے:

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں

شاہیں کا جہاں اور ہے گرگٹ کا جہاں اور

“صدرِ ذی وقار ! اور میرے معزز ہم مکتب ساتھیو “

“گو کہ آج چودہ اگست ہے مگر!! خدا کی قسم پاکستان اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک ہر مزدور کو مزدوری نہیں مل جاتی۔”

“خدا کی قسم پاکستان اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک غریب کا چولہا ٹھنڈا ہے۔ “

“خدا کی قسم پاکستان اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک تمام مریضوں کو مفت علاج کی سہولت میسر نہیں آ تی۔ “

صدر ذی وقار بھی صدیقی صاحب کی تائید میں ہلکا ہلکا سر ہلاتے جا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر صدیقی صاحب کا رنگ مزید سرخ اور آواز مزید بلند ہو گئی اور لعاب کے چھینٹے برساتے ہوئے بولے:

“خدا کی قسم پاکستان اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک وڈیرا غریب ہاری کی بیٹی کی عزت لوٹتا رہے گا۔ “

یہ سنتے ہی پروفیسر صاحب کا ماتھا ٹھنکا، انہوں نے اپنے محبوب کلرک کو اشارہ کیا، اور اس نے صدیقی صاحب کے کان کچھ کہا ور ان کی تقریر ختم ہوئی۔ اس کے بعد پرچم کشائی اور ہماری ہاسٹل کی زندگی کی پہلی اور آخری یوم آزادی کی تقریب کا اختتام ہوا۔

لیکن آج بھی صدیقی صاحب کہیں ملتے ہیں، تو ہم سب انہیں کے انداز میں ہاتھ فضا میں بلند کر کے کہتے ہیں:

خدا کی قسم پاکستان اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا ….

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s