فاسقی میں بھی سلیقہ چاہئیے

ن م راشد صاحب کی شاعری کے حسن میں تو بندہ کھو جاتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ آسانی سے سمجھ نہیں آتی۔ ان کی سب سے پہلی نظم جو میں نے سنی، شہرہ آفاق “حسن کوزہ گر” ۔ لفظ ایسے کہ گویا آہنگ کے موتی پرائے ہوں مگر سمجھ کچھ نہ آیا کہ حسن کون ہے، کیا چاہتا ہے، جہاں زاد کون ہے؟ جہاں زاد اور حسن کا تعلق کیا تھا۔ خیر بیسیوں بار یہ نظم پڑھی،یو ٹیوب پہ سنی اور جتنا اس کے لفظوں اور ترکیبوں پہ غور کیا، ایک ناگوار اور مکروہ حقیقت کھلنے لگی کہ جہاں زاد ایک بیسوا ہے مگر اتنی حسین کہ جس کے ساتھ حسن کوزہ گر ایک رات گزار کر ہی دیوانہ ہو کر اپنی عائلی زندگی سے نہ صرف غافل بلکہ متنفر و مایوس بھی ہو چکا ہے۔ پھر جب ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی “اے حسن کوزہ گر” پڑھی جس میں اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے تو مزید یقین ہو گیا۔

اب میرا ذہن بھی ایسا ہے کہ ادب اور واقعات کی کڑیاں ملاتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ یاد آیا کہ چند سال پہلے، گجرات کا ایک سنیارہ بھی ایک رات کی نشاطِ بے رہ روی سے ایسا بے خود ہوا کہ ایک وڈیو ریکارڈ کرکے اپنے دوستوں کو بھیج دی اور پھر جو دستور ہے کہ وہ وڈیو ہر فون پہ دیکھی گئی۔ آج اس کو دنیا بھولا ریکارڈ کے نام سے جانتی ہے۔ وہ کوئی نظم تو نہ کہہ سکا مگر اس کا فقرہ “جائداداں ویچنیاں پیندیاں نیں” ایک لطیفہ ضرور بن گیا۔

اب اس پہ پطرس بخاری کا لکھا ہوا ایک جملہ یاد آیا کہ “فاسقی میں بھی سلیقہ ہونا چاہئیے”۔ دیکھ ہی لیجئے سلیقہ ہو تو حسن کوزہ گر، نہ ہو تو بھولا ریکارڈ ۔ گو کہ عمل ایک ہے۔

اب اگر آپ آنند پال ستیہ صاحب کی نظم پڑھنا چاہیں تو درج ذیل لنک پہ پڑھ سکتے ہیں:

اے حَسَن کوزہ گر۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s