عطیہ کی بدولت آج اک کافر مسلماں ہے

بھئی بہت ٹھسے کی عورت تھی۔ سر عبدالقادر پہ اس نے ڈورے ڈالنے کی کوشش کی، وہ مولوی آدمی تھا، بچ نکلا۔ سجاد یلدرم حیدر نے جلدی سے مجھ سے شادی کر کے اپنا پنڈا چھڑا لیا۔ شبلی بیچارہ آخری عمر تک اس کے پیچھے مارا مارا پھرا۔ شاید اس بڑھاپے کے عشق نے ہی اس کی جان لی۔ واقعی بڑھاپے کا عشق بڑا ظالم ہوتا ہے۔ اقبال سے اس کا سلسلہ رہا۔ بیچارے نے بڑے طویل فراقیہ خط لکھے، غزلیں لکھیں، شعر کہے، مگر شادی شدہ ہونےسے یا کسی اور وجہ سے اس کے دام سے بچ نکلا، ورنہ پتا نہیں اس کا کیا حشر ہوتا۔

آخر جب کسی کام کی نہ رہیں تو ایک یہود النسل مصور سے شادی کر لی اور وہ بیوی کے خاندانی نام کا دم چھلا اپنے ساتھ لگا کر فیضی رحمی لکھنے لگا۔ کتنی طنطنے والی عورت ہے۔ خاوند پر بے تکان حکم چلاتی ہے، ایسے کرو، یوں بیٹھو، جوان عورتوں سے مت ملو۔ جب میں کسی دعوت میں جاؤں میرے پیچھے پیچھے نظریں جھکائے چلو وغیرہ وغیرہ۔ اس کی شادی کی خبر سنتے ہی، عاشقِ صادق کی طرح چاہئیے تھا کہ شبلی غضب ناک ہو جاتے لیکن انہوں نے اپنے رقیب کی کامیابی کا سواگت ان الفاظ میں کیا:

بتانِ ہند کافر کر لیا کرتے تھے مسلم کو

عطیہ کی بدولت آج اک کافر مسلماں ہے

اللہ اکبر کیا فراخ دل لوگ ہوتے تھے اگلے زمانے کے۔ مجال ہے کہ معشوق کی کج ادائی کا رتی بھر برا منائیں۔ عطیہ بوڑھی ہو گئی ہے، مرنے کے قریب ہے مگرہر وقت بنی ٹھنڈی رہتی ہے۔ بوڑھی گھوڑی لال لگام والی مثال اس پر صادق آتی ہے۔ دعوتیں بے تحاشا اٹینڈ کرے گی۔ کیا مجال کہ کوئی سرکاری فنکشن چھوٹ جائے۔ سب سے پہلے جا موجود ہو گی۔ مردوں سے پہنچ کر ملے گی، ان سے مصافحہ کرے گی اور گھنٹوں ان سے باتیں کرے گی۔ شوہر ؛ بڈھے میاں بے خبر ان کے پیچھے پیچھے ہاتھ باندھے عقیدتاً چلیں گے۔ عجیب و غریب ہستی ہے عطیہ بیگم۔ مادرِ وطن مدتوں بعد ایسی دلچسب عورت پیدا کرتی ہے۔ فلسفہ انہیں آتا ہے، مذہب پر انہیں عبور ہے، شاعری ان کے گھر کی لونڈی ہے، مصوری کی وہ نقاد ہیں۔ موسیقی کی بات کیجئے تو معلوم ہو گا کہ وہ اس فنِ شریف کی بھی نائیکہ ہیں۔ معاف کیجئے نائیک کی تانیث یہی ہو سکتی ہے۔ رقص کے مشکل ترین توڑے تک انہیں یاد ہیں۔ موسیقی کے اوریجن پر انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ خدا کی قسم عطیہ بلا کی عورت ہے۔ وہ ایک فرد نہیں ایک ادارہ ہے، ایک کاک ٹیل ہے، چلتا پھرتا بائیوسکوپ ہے، متحرک بڑھیا ہے، شمعِ محفل ہے، جانِ عشرت خانہ ہے، خدا اس پر رحم کرے! کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔

یہ عطیہ فیضی بیگم کا وہ مکالمی خاکہ ہے جو نذر سجاد حیدر یلدرم نے ایوب ایلیا سے بات کرتے ہوئے کھینچا ہے۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیا دلچسب باتیں کرتی ہوں گی اور وہ کیا گود تھی جس میں قرۃ العین حیدر نے پرورش پائی۔ افسوس کہ نذرسجاد جیسی شخصیت کو ہم جانتے بھی نہیں تھے۔

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s